رسائی کے لنکس

پاکستان کا سیاسی اتار چڑھاؤ امریکہ کے لیے لمحہ فکریہ


پاکستان کا سیاسی اتار چڑھاؤ امریکہ کے لیے لمحہ فکریہ
پاکستان کا سیاسی اتار چڑھاؤ امریکہ کے لیے لمحہ فکریہ

پاکستان میں پچھلے عام انتخابات اٹھارہ فروری دو ہزار آٹھ کوہوئے تھے ۔ اصولی طور پر پاکستان کے اگلے عام انتخابات کو ابھی کم از کم ڈیڑھ سال دور ہونا چاہئے ، لیکن ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے پچھلے کئی ماہ سے نئی سیاسی تبدیلیوں کے امکانات کواہمیت دے رہے ہیں۔

پاکستانی سیاست میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران آنے والی تیزی ، ٹوٹتی بدلتی سیاسی وفاداریاں اور حکومت کی کارکردگی پرعوام کے عدم اطمینان نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے ، جس میں پچھلے دس مہینوں کے دوران پاک امریکہ تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ کی پیچیدگیاں بھی شامل ہیں۔

واشنگٹن کے ایک ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے اس سال مئی میں اسامہ بن لادن کی موت کے بعد مرتب کئے گئے جائزے کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت امریکہ سے ناراض ہے ۔

رچرڈ وائیک کہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکہ کے بارے میں رائے بےحد منفی رہی ہے ، جس کی بڑی وجہ پاکستان میں امریکی پالیسیوں کی غیر مقبولیت ہے ، افغان جنگ غیر مقبول ہے ، امریکہ کے ڈرون حملے غیر مقبول ہیں ۔ بہت سے لوگوں کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لئے کی گئی کارروائی پر اعتراض تھا ۔

پاکستانیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ امریکہ ان کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کو خوف کی علامت ایسی طاقت سمجھتے ہیں جو ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے ،وہ اس پر اعتماد نہیں کرتے ۔

اس سروے کے مطابق جسے ٕمختلف عوامی گروہوں سے تعلق رکھنے والے ساڑھے بارہ سو پاکستانیوں کی آراء کی روشنی میں مرتب کیا گیا، سیاسی راہنماوں کی مقبولیت کے گراف میں صدر زرداری صرف گیارہ فیصد کے ساتھ سب سے نیچے ، وزیر اعظم گیلانی37 فیصد کے ساتھ ان سے کچھ بہتر، مسلح افواج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی 52 فیصد مقبولیت کے ساتھ تیسرے نمبر پر جبکہ63 اور 68 فیصد مقبولیت کے ساتھ بالترتیب نواز شریف اور عمران خان سب سے اوپر تھے ۔

اگر آپ پاکستان میں لوگوں کے موڈ کو دیکھیں تو ظاہر ہے کہ وہ بہت منفی ہے ، دس میں سے نو پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ وہ ملک کی موجودہ سمت سے غیر مطمئن ہیں ۔ پ85 فیصد کا کہنا تھا کہ معیشت کی حالت بری ہے ۔ تو مجموعی طور پر ملک کے حالات کے بارے میں منفی رائے پائی جاتی ہے ۔ جس کا اثر یقیناً سیاسی راہنماوں کے بارے میں پائی جانے والی رائے پر ہوسکتا ہے۔

فاؤنڈیشن فار ڈیمو کریسیز کے اندازے کے مطابق صرف اس سال کے دوران پاکستان میں کم ازکم 64 ڈرون حملے ہو چکے ہیں ۔رچرڈ وائیک کہتے ہیں کہ یقینا ڈرون حملوں کے بارے میں آگہی بڑھی ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ غیر ضروری ہیں ، ان کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت ہوتی ہے ، یہ پاکستانیوں کے لئے ایک اہم معاملہ بن چکا ہے اور اب عوامی رائے پر اس کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں ۔

واشنگٹن میں پلئنگ ود فائرکے نام سے پاکستان پر کتاب لکھنے والی امریکی صحافی پامیلا کانسٹیبل ڈرون حملوں کو ٹیکنالوجی کی کامیابی تو قرار دے رہی ہیں لیکن حکمت عملی کی کامیابی نہیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ ہماری ڈرون مہم ٹیکٹیکل کامیابی اور سٹرٹیجک تباہی ہے ۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی ہمیں پسند کریں ، اگر ہم اس نام نہاد طویل مدتی تعلق کو حقیقتا با معنی بنانا چاہتے ہیں ، تو ہمیں اور بھی احتیاط سے سوچنا ہوگا ۔ ڈرون حملوں نے کچھ اہم اہداف کو نشانہ بنایاہے لیکن ان کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستانی آج وہ سوچ رہے ہیں ، جس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔

اپریل سے اکتوبر کے درمیان پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاست کا سٹئیرنگ وہیل مہنگائی ، لوڈ شیدنگ اور ڈرون حملوں نے سنبھالے رکھا ۔ جس کا نکتہ عروج 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں دیکھنے میں آیا ۔

واشنگٹن میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ڈرون حملوں کی مخالفت اور پاکستان کی خود مختاری کے سوال پرلاہور میں عوامی طاقت کا اتنا بڑا مظاہرہ پچھلے کچھ دنوں میں پاکستان سے آنے والی سب سے بڑی سٹوری ہے ۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے اسکالر نصر ولی کہتے ہیں کہ عمران خان کا ابھرنا ، چاہے کوئی ان کے بارے میں جو بھی رائے رکھتا ہو ، امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ، کیونکہ پاکستان میں ، جہاں معیشت اچھی حالت میں نہیں ، اور سویلین حکومت کے خلاف پہلے ہی کافی غصہ ہے ، امریکہ کی پاکستان کے لئے پالیسیوں پر غصہ ایک بڑے عوامی رد عمل کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ابھی صرف دو سال پہلے تک عمران خان کو پارلیمنٹ میں ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی تھی ۔ ان کی پارٹی پاکستان کے سیاسی نقشے پر کہیں نہیں تھی ، لیکن جب انہوں نے ایک امریکہ مخالف عوامی پلیٹ فارم اختیار کیا تو وہ اتنا بڑا اجتماع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔

ایرانی نژاد تجزیہ کار ولی نصر مسلمان بھی ہیں اور پاکستان سے اچھی طرح واقف بھی ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ امریکہ مخالف جذبات پاکستان کی آئندہ سیاست اور انتخابات میں بھی کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں گے ؟ ۔پاکستانی صحافی زاہد حسین ایسا نہیں سمجھتے۔

ان کا کہناہے کہ میرے خیال میں تو ایسا نہیں ہوگا ،پاکستان میں انتخابات اینٹی امریکہ بنیاد پر نہ پہلے کبھی لڑاگیا تھا ، نہ اب لڑا جائے گا ۔ پاکستان کے اصل مسائل بے روزگاری ، معاشی صورتحال ، امن عامہ ہیں ، جو عوام پر براہ راست اثر کرتے ہیں ۔ اوران کی بنیاد پر الیکشن لڑا جا سکتا ہے ۔

اگرعمران خان کے لاہور کے جلسے کو پاکستانی عوام کےحقیقی موڈ کا عکاس سمجھ لیا جائے تو پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی ہے پاکستان کی یا پھر دونوں کی ؟ کیا پاکستان کی بھلا ئی ملک کے حقیقی مسائل ختم کرنے میں ہے یا امریکہ مخالف جذبات کو ابھارنے یا کم کرنے میں ؟ ان سوالوں پر بحث بھی شاید پاکستان میں اگلے انتخابات تک جاری رہے گی ، لیکن واشنگٹن میں ماہرین اب ان امکانات کا وزن ضرور کر رہے ہیں کہ پاکستان میں کسی مضبوط سیاسی قیادت کے ابھرنے کی صورت میں امریکہ کی اگلی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے ۔

XS
SM
MD
LG