رسائی کے لنکس

پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کی ضمانتیں ، ڈیل ہے یا کچھ اور


پیپلز پارٹی کے کئی ایک راہنماؤں کی ضمانتوں اور ملک میں آمد کے پس منظر اور عمران خان کے’’ نوراکشتی ‘‘کے إلزام پر سیاسی راہنماؤں اور تجزیہ کاروں کی رائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور حکمران مسلم لیگ نواز کے راہنما اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے راہنماؤں کی بڑے مقدمات میں ضمانتیں یا ملک واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ جبکہ بعض غیرجانبدار تجزیہ کار یکے بعد دیگرے اپوزیشن کو ملنے والی رعایتوں کو، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرح شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مقدمے میں کمزور پیروی کے ذریعے نواز حکومت سابق صدر آصف زر داری کی پارٹی کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔

عمران خان نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ اربوں ڈالر کے غبن کے ملزم اور آصف زر داری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم کی ضمانت، قبل ازیں حج کرپشن کیس میں سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کی رہائی، کرپشن کے الزام کے بعد خود ساختہ جلاوطن ہونے والے سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل میمن کی ضمانت اور واپسی اور ماڈل آیان علی کا ای سی ایل سے نام ہٹایا جانا سب نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کسی خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور عدالتوں سے ملنے والی اس رعایت کا سبب مقدمات کی صحیح طور پر پیروی نہ کرنا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نورا کشتی ہے اور دراصل دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو بچانے میں مصروف ہیں۔

وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی راہنما اور سابق وزیر مملکت برائے قانون و انصاف مہرین انور راجہ نے کہا کہ عمران خان کا الزام ، دراصل عدالتوں پر الزام ہے کیونکہ ضمانتیں وہاں سے منظور ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا پراسیکیوشن نظام میں خامیاں ضرور ہو سکتی ہیں جن کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

مسلم لیگ نواز کے راہنما صدیق الفاروق نے کہا کہ الزامات لگانا عمران خان کا خاصہ ہے۔ ان کے بقول عدالتیں آزاد ہیں اور وقت کے وزیراعظم کے خاندان کی ملیں بھی اگر ایک شہر سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہیں تو عدالت اس کے خلاف فیصلہ دیتی ہیں۔

تجزیہ کار پروفیسر ہما بقائی نے اسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکمران نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کچھ بھی کہے، ایک ہفتے کی مدت میں انہیں جس طرح کی رعایتں ملی ہیں یہ تاثر لینا غلط نہیں ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ مفاہمت ضرور ہے، اور ایک ایسے موقع پر ہے جب حکومت کو فوجی عدالتوں میں توسیع اور مردم شماری کے نتیجے میں ممکنہ حلقہ بندیوں میں پیپلز پارٹی کا تعاون درکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں اور یہ ان کے مفاد میں نہیں ہے کہ عمران خان کی شکل میں کوئی تیسری پارٹی حکومت ، اسی لیے وہ ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG