رسائی کے لنکس

سینیٹ میں بالادستی کے لیے سیاسی جماعتوں کے رابطے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لیے کسی مفاہمت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ان دنوں ایوان بالا "سینیٹ" میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین رابطوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں چھوٹی جماعتوں اور آزاد اُمیدواروں کی اہمیت ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔

پانچ مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کی 27 جب کہ حکمران مسلم لیگ ن کی 26 نشستیں ہیں اور یہ دونوں جماعتیں دیگر پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی جو قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی اور صوبہ سندھ میں حکمران جماعت ہے، کی کوشش ہے کہ وہ سینیٹ میں اپنی برتری کو برقرار رکھے جب کہ قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کی خواہش ہے ایوان بالا میں اس کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہو تاکہ اسے قانون سازی میں مشکل درپیش نہ آئے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لیے کسی مفاہمت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

سینیئر تجزیہ کار خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حالیہ برسوں کی سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

"عمومی طور پر یہ ہوتا ہے کہ جو بڑی جماعتیں ہوتی ہیں ان کا جو ایک طرح سے توازن ہوتا ہے سیٹوں کے حوالے سے اس میں فرق اتنا نہیں ہوتا ہے اس لیے چھوٹی جماعتیں جن کے پاس دو، چار سینیٹر ہوتے ہیں ان کا وزن بڑھ جاتا ہے اس لیے میرا خیال ہے کہ جو بھی سیاسی جماعتیں ہوں پاکستان مسلم لیگ (ن) ہو یا پاکستان پیلز پارٹی ہو، جو بھی چھوٹی جماعتوں کو بات چیت کے ذریعے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا چیئرمین آئے گا۔ دیکھا جائے تو آصف زرداری پچھلے سالوں سے کافی مہارت اور تجربہ رکھتے ہیں اور زیادہ قوی امکان ہے کہ وہ زیادہ جماعتوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے"۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پانچ سال تک حکومت کی اور ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کوئی جمہوری حکومت اپنی آئینی معیاد مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی۔

خادم حسین کا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں کسی قدر بلوغت کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں لہذا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ سینیٹ انتخابات کے بعد کی صورتحال میں بھی ایسی ہی افہام و تفہیم دیکھنے میں آئے۔

"میرا خیال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں پاکستان میں بلوغت کی طرف جا رہی ہیں اور ان کی ادارتی حیثیت بہت مضبوط ہوتی جا رہی ہے تو یہ امکان بہت زیادہ ہے کہ اتفاق رائے سے یہ انتخاب (چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ) مکمل ہو جائے"۔

104 نشستوں والے ایوان بالا کے 52 ارکان اپنی رکنیت کی معیاد پوری ہونے پر 11 مارچ کو سبکدوش ہو رہے ہیں۔

ان انتخابات کا ایک بڑا مرحلہ تو مکمل ہو چکا ہے لیکن وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے چار ارکان کا انتخاب، الیکشن سے محض چند گھنٹے قبل صدارتی آرڈیننس جاری ہونے کے باعث ابہام کا شکار ہو گیا اور اسے ملتوی کر دیا گیا۔

صدر ممنون حسین نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت ماضی کے برعکس فاٹا سے ارکان قومی اسمبلی کو چار کی بجائے ایک ہی ووٹ ڈالنے کا اختیار حاصل ہو گا۔

فاٹا کے ارکان اور مختلف سیاسی جماعتوں نے اس آرڈیننس کو نامناسب قرار دیا جب کہ حکومتی ارکان یہ کہہ کر اس کی حمایت کر رہے ہیں کہ سب کو ووٹ کا یکساں حق ہی حاصل ہونا چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG