رسائی کے لنکس

نئے صوبوں کی سیاست، قومی یکجہتی کے لئے خطرہ


پاکستان میں جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے نئے صوبوں کے قیام پربحث میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ’صوبائی سیاست‘عروج پر ہے اور نئے نئے صوبوں کے ساتھ ساتھ نئے نئے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ مبصرین اس نقطہ پر سیاست میں برتری کے حصول کو قومی یکجہتی کیلئے انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
نئے صوبوں کی بحث نے دو سال قبل اس وقت زور پکڑا جب پارلیمانی جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام بدل کر ’خیبر پختونخواہ‘ رکھ دیا۔ اس اقدام پر صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن سےفوری اور سخت رد عمل سامنے آیا ۔ وہاں تحریک صوبہ ہزارہ شروع کر دی گئی جس کے بعد ملک کے دیگر حصوں سے بھی الگ صوبوں کی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔
اِسی اثنا میں اچانک نئے صوبوں سے متعلق اپنا نظریہ لیکر سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ منظر عام پر آئی اور رواں سال جنوری میں اس نے قومی اسمبلی میں صوبہ ہزارہ اورسرائیکی صوبہ کی قرارداد پیش کرکے سب کو حیران کر دیا ۔ابھی لوگ اس حیرت سے نکلے بھی نا تھے کہ14 اپریل کو صدر زرداری نے بھی اچانک ہی سرائیکی صوبہ بنانے سے متعلق بیان دیا۔
اس کے دو ہفتہ بعد ہی اس بیان کے مزید حیران کن نتائج اس وقت سامنے آئے جب پنجاب اسمبلی کی ملتان کی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج پیپلزپارٹی کے حق میں آئے۔ تیس سال میں یہ پہلا موقع تھا جب پیپلزپارٹی نے ن لیگ سے اس نشست کو چھینا۔
ان نتائج کو دیکھ کر پیپلزپارٹی کے حوصلے اور بڑھ گئے اور اس نے قومی اسمبلی کے حالیہ سیشن میں اپوزیشن کے احتجاج میں سرائیکی صوبے کی قرارداد بھی منظور کرا لی جس کے جواب میں ن لیگ نے1۔ جنوبی پنجاب2۔ہزارہ ،3۔ فاٹا اور4۔ بہاولپور صوبوں کے قیام کیلئے قراردادپنجاب اسمبلی میں جمع کرا دی۔
سرائیکی صوبے سے متعلق پیپلزپارٹی کی قرارداد پر ایم کیو ایم بھی حیران ہے ۔ رکن قومی اسمبلی وسیم آفتاب کے مطابق دونوں بڑی جماعتیں عوام کو بے وقوف بنا رہی ہیں۔ ایم کیو ایم جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبے کےقیام کیلئے پہلے ہی قرارداد اسمبلی میں پیش کر چکی ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو نئے صوبوں کےقیام کی سیاست قوم کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کا سبب بن رہی ہے۔ایک جانب توقرارداد پیش ہونے پر سرائیکی علاقوں میں جشن منایا جا رہا ہے تو دوسری جانب صوبہ سرائیکی کے ساتھ صوبہ ہزارہ کی قرارداد پیش نہ ہونے پر ہزارہ میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے اور اس کے بعد سے اب تک تحریک صوبہ ہزارہ سراپا احتجاج ہے۔ جمعہ کو ایبٹ آباد میں پریس کانفرنس میں تحریک کے رہنماوٴں نے نہ صرف14 مئی کو اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے کا اعلان کیا بلکہ سول نافرمانی کے ساتھ ہر طرح کے احتجاج کا اعلان بھی کر دیا۔
یہ تمام تر صورتحال اہل دانش کی نظر میں انتہائی دلچسپ ہے۔ ان کے مطابق موجودہ آئین میں کوئی بھی صوبہ تشکیل دینے سے قبل وہاں کی صوبائی اسمبلی میں ایک تہائی اکثریت ضروری ہے اور موجودہ صوبائی اسمبلیوں میں پیپلزپارٹی یا کسی بھی جماعت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں کہ وہ فوری طور پر نئے صوبے کا قیام عمل میں لا سکے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تمام جماعتیں اتنی ہی مخلص ہیں تو پھر ایک ساتھ بیٹھ کر اٹھارویں اور اس کے بعد آنے والی آئینی ترمیموں کی طرح صوبوں کے قیام کیلئے نیا کمیشن کیوں نہیں لے آتیں؟جن علاقوں میں نئے صوبہ بنانے کی بات کی جا رہی ہے وہاں ریفرنڈم کیوں نہیں کرایا جاتا؟ایک بار ایم کیو ایم صوبہ ہزارہ اورسرائیکی صوبے پر قراردادپیش کر چکی ہے تو اس پر بحث کیوں نہیں کی جاتی ؟
اس وقت نئے صوبوں پر بظاہر تمام جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات دکھائی دے رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے مقابلے میں ن لیگ کا بہاولپور صوبے کے قیام پر زور ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اٹھارویں ترمیم میں خیبر پختونخواہ کی حمایت کرنے پر اسے ہزارہ کے عوام بھی ناراض نظر آرہے ہیں۔ ایم کیو ایم ہزارہ میں ن لیگ کی کمزور ہوتی ہوئی ساکھ سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔اے این پی سرائیکی صوبے کی حمایت اس لئے کرتی ہے کہ اسے ہزارہ کی مخالفت پر پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل ہو جائے۔ مسلم لیگ ق سرائیکی اور ہزارہ صوبے کی بات بھی کرتی ہے لیکن انتظامی بنیادوں پر ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی الگ صوبوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ کے باہر ہیں۔
مبصرین کے مطابق اگر اس معاملے کو اسی طرح ہوا دی جاتی رہی تو اس کا ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔ سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہویا نہ ہو لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل میں تعصب اور نفرت کی سیاست جنم لے گی جس کے قومی یکجہتی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG