رسائی کے لنکس

انٹرنیٹ کی موثر نگرانی کے لیے آلات کی خریداری


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

’’اس سے کسی شخص کے نجی معاملات یا زندگی میں مداخلت نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی کی آزادی سلب ہوگی۔

ٹیلی مواصلات کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے ملک میں ایک انٹرنیٹ سے متعلق ایک ایسا ’’موثر‘‘ نطام متعارف کروانے جا رہا ہے جس کے ذریعے صرف متعلقہ توہین آمیز اور فحاشی پر مبنی مواد پر ہی قدغن لگائی جا سکے گی۔

پی ٹی اے کے ممبر ٹیکنیکل ڈاکٹر خاور صدیق کھوکھر نے وائس آف امریکہ کو پیر کو بتایا کہ ان کا ادارہ ایسے آلات خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے ذریعے صرف وہ انٹرنیٹ کے لنک جہاں توہین مذہب اور نازیبا مواد موجود ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد کسی مکمل ویب سائٹ کو بند کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
’’اس سے کسی شخص کے نجی معاملات یا زندگی میں مداخلت نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی کی آزادی سلب ہوگی۔ اس سے ہم صرف توہین آمیز مواد کی روک تھام کرسکیں گے۔‘‘

ان کے مطابق آئندہ چند ماہ میں نگرانی کا یہ نظام متعارف کردیا جائے گا۔

پی ٹی اے کے حکام کی جانب سے نئے نظام کو متعارف کرانے کا اعلان ایک ایسے وقت میں آیا جب گزشتہ ہفتے پی ٹی اے نے تقریبا چار ماہ کی بندش کے بعد ملک میں انٹرنیٹ کمپنیوں کو یوٹیوب کو بحال کرنے کے احکام جاری کیے تھے۔ مگر محض دو گھنٹوں کے بعد انٹر نیٹ کی اس سائیٹ پر امریکی ہدایتکار کی گستاخانہ فلم کی جھلکیوں کی موجودگی کی اطلاعات پر وزیراعظم نے یوٹیوب کو دوبارہ بند کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

رواں سال ستمبر میں اسلام مخالف فلم کے بعض حصے یوٹیوب پر نشر کیے جانے پر دنیا کے متعدد ممالک سمیت پاکستان میں بھی اس کے خلاف شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔ پاکستان میں ہونے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ جس کے بعد

حکومت نے یوٹیوب بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

یوٹیوب ایک ایسی وڈیو سائیٹ ہے جس پر پوری دنیا سے انٹرنیٹ صارفین وڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں اور اس پر تفریح کے علاوہ بے شمار تعلیمی مواد بھی میسر ہوتا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفامیشن ٹکنالوجی کی ممبر انوشہ رحمان کہتی ہیں کہ نگرانی کا یہ نظام سود مند ہوگا مگر اسے عوام کے آذادی رائے اور معلومات تک رسائی کے حقوق کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیئے۔

’’المیہ یہ ہے کہ پی ٹی اے کو پتہ نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ مکمل یو ٹیوب کو بند کرنے کی بجائے مخصوص مواد کو روکنے کے لیے نظام اب تک واضح کردیتے تو آج یہ کچھ ہوتا نہ۔‘‘
ان کے مطابق بھارت، بنگلہ دیش اور ملیشیا میں ایسے نظام پہلے سے موجود ہیں اور نا زیبہ مواد کے علاوہ وہاں عوام کو یو ٹیوب تک رسائی حاصل ہے۔

پاکستان میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ایک عرصے سے یوٹیوب کی بندش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی رہی ہے کیونکہ ان کے بقول یہ معلومات تک رسائی کے ان کے بنیادی حق پر قدغن کے مترادف ہے۔
XS
SM
MD
LG