رسائی کے لنکس

کوئٹہ میں ’ٹارگٹڈ آپریشن‘ جاری، دھرنے ختم کرنے کا اعلان


وزیراعظم نے کوئٹہ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایک چھ رکنی پارلیمانی وفد تشکیل دیا تھا جس نے شیعہ ہزارہ برادری کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے دیر پا امن کے لیے بھی مشاورت کی۔

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی طرف سے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کوئٹہ بھیجے جانے والے پارلیمانی وفد سے مذاکرات کے بعد شیعہ ہزارہ برادری نے لاشوں کے ہمراہ تین روز سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اب بتدریج لاشوں کی تدفین شروع کر دی جائے گی۔

گورنر بلوچستان اور دیگر فریقین سے ملاقات کے بعد پارلیمانی وفد کے سربراہ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ہزارہ برادری سے بات چیت میں ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور پائیدار امن کے لیے بھی ان سے تفصیلی مشاورت کی گئی ہے۔

کوئٹہ میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میں وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ اس میں اب تک دیگر مقدمات میں مطلوب چار شدت پسند مارے جا چکے ہیں جب کہ 170 کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان کے بقول یہ ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہے گا۔

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قیام امن کے لیے ’ٹارگٹڈ آپریشن‘ شروع کرنے کا حکم دیا تھا جس کا مقصد۔ معصوم جانوں سے کھیلنے والے عناصر کی سرکوبی کرنا ہے۔

گزشتہ ہفتہ کی شام کوئٹہ کے کیرانی روڈ پر ہونے والے طاقتور ترین بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد منگل کو 90 سے تجاوز کرگئی ہے۔ مرنے والوں کا تعلق بلوچستان کی شیعہ ہزارہ برادری سے ہے جس پر ماضی میں بھی ہلاکت خیز حملے ہوتے آئے ہیں جب کہ گزشتہ ماہ بھی علمدار روڈ کوئٹہ میں انھیں بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کوئٹہ میں پیش آنے والے اس واقعے کے خلاف ملک کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا جب کہ منگل کو پارلیمان میں اس پر بحث دوسرے روز بھی جاری رہی۔

قومی اسمبلی میں حزب مخالف مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ نے جب کہ سینٹ میں جمیعت العما الاسلام ف نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کوئٹہ کے واقعے سمیت دیگر دہشت گردانہ حملوں میں ارکان کو بند کمرے میں بریفنگ دیں۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور خورشید شاہ نے ایوان کو یقین دلایا کہ وزیر داخلہ جلد ہی یہ بریفنگ دیں گے۔

ادھر پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بھی کوئٹہ میں ہزار شعیہ برادری پر بم حملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے منگل کو اس معاملے کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا کہ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہی ہیں جب کہ صوبائی اور مرکزی حکومت نے بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر ہونے والا بم حملہ ’آپریشن کلین اپ‘ کا ایک اچھا موقع تھا۔

انھوں نے بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل سے دریافت کیا کہ اس ضمن میں اب تک حکومت کیا کارروائی کر چکی ہے۔ گزشتہ ہفتہ کی شام کوئٹہ کے کیرانی روڈ پر ایک طاقتور ترین بم دھماکے میں 83 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔
XS
SM
MD
LG