رسائی کے لنکس

پاکستان کا انسداد دہشت گردی کی کوششیں جاری رکھنے کا عزم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی مذہبی تنظیموں کی طرف سے مشتبہ مدرسوں اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائی کے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

پاکستانی حکام انسداد دہشت گردی کے لیے قومی لائحہ عمل پر پیش رفت کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں مگر اب بھی اس کے کئی نکات پر قابل ذکر پیش رفت نہیں کی جا سکی۔

پیر کو وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں سلامتی سے متعلق معاملات پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں قومی لائحہ عمل کے مختلف حصوں کا جائزہ لیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق اجلاس میں ملک کے اقتصادی مرکز کراچی میں جاری آپریشن کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

کراچی کئی سالوں سے بدامنی کا شکار رہا ہے اور وہاں متعدد شدت پسند اور جرائم پیشہ عناصر نے اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔ رینجرز کی نگرانی میں گزشتہ دو برس سے جاری آپریشن سے شہر میں امن و امان کی صورتحال میں خاصی بہتری آئی ہے مگر صوبہ سندھ کے شہری علاقوں کی اہم جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے آپریشن کے خلاف تحفظات سامنے آنے کے بعد وہاں کارروائی بظاہر کچھ سست روی کا شکار ہوئی تھی۔

ادھر شائع شدہ خبروں کے مطابق خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال 17 دسمبر سے اس سال 31 اکتوبر تک قومی لائحہ عمل کے تحت 10 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ دیگر 22 ہزار کو پوچھ گچھ کے لیے پکڑا گیا۔ اس کے علاوہ سکیورٹی فورسز نے مشتبہ افراد کو پکڑنے کے لیے چھاپے مارے اور صوبے کے بندوبستی علاقوں میں انہیں ٹھکانے بنانے سے روکنے کے لیے کارروائیاں کیں۔

گزشتہ سال دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں لگ بھگ 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن کی اکثریت بچوں پر مشتمل تھی جس کے بعد انسداد دہشت گردی کے لیے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا گیا تھا۔

تاہم پیر کو ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت، انہیں بیرون ملک سے ملنے والی امداد، مدرسوں کی نگرانی، فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی اور نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے سلسلے میں ابھی مزید کام کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی مذہبی تنظیموں کی طرف سے مشتبہ مدرسوں اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائی کے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

سکھر پولیس کی جانب سے ضلع میں نئے مدرسوں کے قیام اور غیر اندراج شدہ مدرسوں کو ختم کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان کی ایک بڑی مذہبی و سیاسی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) نے کہا کہ وہ اس پابندی کو قبول نہیں کرے گی۔ مولانا فضل الرحمٰن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ حکومت قومی لائحہ عمل کے نام پر علما کو نشانہ بنا رہی ہے۔

تاہم حکومتی عہدیدار متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی اور جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG