نیٹو کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے واضح طور پر کہا کہ تنظیم کی افواج کو افغانستان سے نکلنے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور ملک میں جنگجوؤں کو شکست دینے کے لیے اب ماضی سے مختلف اور زیادہ جامع حکمت عملی پر عمل کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل رابرٹ سمنز نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف فوجی قوت سے ممکن نہیں ہے اور ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اب جو پالیسی اپنائی گئی ہے اس میں اگرچہ عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہتر طرز حکمرانی قائم کرنے اور عوام کی ضروریات کے علاوہ ملکی اداروں کو سکیورٹی کی باگ دوڑ سنبھالنے کے قابل بنایا جائے گا۔
نیٹو کے اعلیٰ عہدے دار کا کہنا تھا کہ اس پالیسی میں سیاسی مصالحت کو بھی اہمیت دی گئی ہے تاکہ ان لوگوں کو اس عمل میں شامل کیا جا سکے جو طالبان جنگجوؤں کا ساتھ ترک کر چکے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔
مسٹر سمنز نے تسلیم کیا کہ سال 2009ء افغانستان میں سکیورٹی کے اعتبار سے حوصلہ افزا نہیں رہا تاہم انھوں نے یہ تنقید بھی کی کہ نیٹو افواج نے ملک میں سکیورٹی کو بہترکرنے کے لیے جو اقدامات کیے اس کے بعد ایک بہتر حکمرانی کا فقدان پایا گیا۔
رابرٹ سمنز کے مطابق یہی وہ کمی ہے جسے دور کرنے کے لیے نیٹو اب افغان حکومت کی مدد کرے گا۔
افغانستان سے واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ نیٹو صورت حال کا وقتاََفوقتاََ جائزہ لے کر یہ طے کرے گی کہ واپسی کس وقت اختیار کرنی چاہیئے اور اس بارے میں کوئی حتمی ڈیڈ لائن نہیں دی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز افغانستان میں نیٹو کے سب سے بڑے اڈے بگرام ائر بیس پر عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک اور کم از کم نو امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔