رسائی کے لنکس

'عمران خان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا'


پاکستان کےدفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے افغانستان سے متعلق بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بعض حلقوں کی طرف سے "غیر ضروری ردِ عمل" کا اظہار کیا گیا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے رواں ہفتے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام سے افغان امن عمل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کے اس بیان نے سفارتی تنازع کو جنم دیا تھا اور اس پر سرحد پار سے کڑی تنقید کی گئی تھی۔

کابل حکومت نے عمران خان کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔

افغان حکومت نے منگل کو کابل میں تعینات پاکستان کے نائب سفیر کو دفترِ خارجہ طلب کر کے عمران خان کے بیان پر احتجاج کیا تھا۔

دوسری طرف امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے افغان امن عمل کے لیے تعمیری کردار ادا کیا ہے لیکن عمران خان کے بیان نے اس کے برعکس کام کیا ہے۔

اپنے ایک ٹوئٹ میں خلیل زاد نے کہا کہ افغانستان کا مستقبل افغانوں کے لیے ہے اور وہی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول اس کے لیے بین الاقوامی برادری کو افغانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آپس میں بات چیت کریں۔

اطلاعات کے مطابق صحافیوں سے اپنی گفتگو میں عمران خان نے افغان حکومت کو امن عمل کی راہ میں رکاوٹ بھی قرار دیا تھا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم نے مزید کہا تھا کہ افغانستان میں ایک غیر جانب دار حکومت افغانستان میں صاف اور شفاف انتخابات منعقد کر کے افغان امن عمل کو کامیاب بنا سکتی ہے۔

عمران خان کے بیان پر سوشل میڈیا میں بھی کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

بیان پر تنازع اور افغان حکومت کے ردِ عمل کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بدھ کو ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ وزیرِ اعظم نے پاکستان کی مثال دیتے ہوئے بات کی تھی جہاں انتخابات عبوری حکومت کے تحت منعقد ہوتے ہیں اور اس تناظر میں "عمران خان کے بیان کو افغانستان کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔"

دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق افغانستان میں افغانوں کی قیادت اور سرپرستی میں امن عمل کو فروغ دینے کے علاوہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی دوسرا مفاد نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG