رسائی کے لنکس

قتل کا ملزم 14 سال بعد بے گناہ قرار


سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر منگل کو جسٹس دوست محمد کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملزم کو رہا کرنے کا حکم سنایا۔

پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ایک مقدمۂ قتل میں 14 سال سے قید ایک ملزم کو منگل کو یہ کہہ کر بری کرنے کا حکم دیا ہے کہ استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

شوکت نامی ملزم کو 2003ء میں کراچی میں ایک شخص کو قتل کرنے پر ماتحت عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف دائر اپیل پر سندھ ہائی کورٹ نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا تھا۔

تاہم سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر منگل کو جسٹس دوست محمد کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملزم کو رہا کرنے کا حکم سنایا۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں کسی شخص کی اپیل پر ایسے وقت رہائی کا فیصلہ آیا ہو جب وہ پہلے ہی کئی برس کی قید کاٹ چکا ہو۔

ماضی میں کئی ایک ایسے مقدمات بھی سامنے آ چکے ہیں جن میں عدالت نے جب ملزم کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تو وہ پہلے ہی دورانِ قید انتقال کر چکا تھا۔

رواں سال کے اوائل میں لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ایک شخص کی اپیل پر جب فیصلہ دیا گیا تو وہ اپنی بریت کے اس فیصلے سے دو سال قبل ہی جیل میں انتقال کر گیا تھا۔

مبصرین یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک کے نظامِ عدم اور قانون میں وسیع پیمانے پر اصلاحات ناگزیر ہیں کیونکہ زیرِ التوا مقدمات کا بڑھتا ہوا انبار ان پر شنوائی کے عمل کو سست بنا دیتا ہے جس سے فیصلوں کا انتظار کرنے والے دنیا سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور معروف وکیل ضیاالدین اعوان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجود عدالتی نظام لوگوں کی ضروریات اور توقعات پر پورا نہیں اترتا۔

ان کے بقول ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو مقدمات کے اندر ہی ایسے ملزمان جن کی بے گناہی ثابت ہوتی ہو اور وہ ایک عرصے جیل میں رہ چکے ہوں ان کے اس نقصان کی تلافی کے لیے حکم دے سکیں لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔

"ایسا نہیں کہ قانون نہیں ہے لیکن کون جائے گا اور کون اس نظامِ قانون کو دیکھے گا کہ 14 سال اس کو گزر گئے اپنا فیصلہ کراتے ہوئے اور اگلے 15 سال اس کو لگ جائیں گے تلافی کا کیس لڑتے ہوئے۔ تو قانون موجود ہے لیکن اسے کس طرح نافذ کرنا ہے اور کیسا نظام بنانا ہے یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔"

ضیا الدین اعوان کے نزدیک اس میں صرف عدالتیں اور ججز ہی نہیں بلکہ وکلا اور تفتیشی اداروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ان کے بقول جس قدر یہ معاملہ بڑا اور سنگین ہے اس پر قومی سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG