رسائی کے لنکس

پاناما کیس: 'خاندانی دستاویزات 1999ء میں ضائع ہو چکی ہیں'


سپریم کورٹ (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ (فائل فوٹو)

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ کوئی فوجداری مقدمہ نہیں ہے لہذا اس میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا اور عدالت اس ضمن میں متعلقہ اداروں کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف غیر ملکی اثاثے رکھنے کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت تقریباً دو ہفتوں کے تعطل کے بعد بدھ کو عدالت عظمیٰ میں دوبارہ شروع ہوئی۔

یکم فروری کو یہ سماعت پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید شیخ کی علالت کے باعث ملتوی کر دی گئی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے بدھ کو جب دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تو وزیراعظم کے بیٹوں کے وکیل سلمان اکرام راجہ نے اپنے دلائل وہیں سے شروع کیے جہاں آخری سماعت میں وہ ختم ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے کاروبار کا گزشتہ 40، 45 سالوں کو ریکارڈ موجود نہیں اور 1999ء میں لگائے گئے مارشل لاء کی وجہ سے خاندانی دستاویزات بھی ضائع ہو چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی فوجداری مقدمہ نہیں ہے لہذا اس میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا اور عدالت اس ضمن میں متعلقہ اداروں کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔

اس بارے میں سلمان اکرم راجہ نے ماضی کے بعض مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ حقائق جاننے کے لیے معاملے کو مناسب فورمز پر بھیج سکتی ہے۔

عدالت نے لندن کے ایک مہنگے علاقے میں واقع فلیٹس کی ملکیت اور ان کی خریداری سے متعلق شریف خاندان کے وکلا سے سوال پوچھ رکھا ہے۔

سلمان اکرام راجہ نے عدالت کو بتایا کہ فلیٹس حسین نواز نے اپنے دادا میاں شریف کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدے تھے۔

معاملے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے جسے اب جمعرات تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

حسب معمول بدھ کو سماعت کے بعد حکمران مسلم لیگ (ن) اور درخواست گزار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے راہنماؤں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں اپنے اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے فریقین کو سخت سست سنائیں۔

XS
SM
MD
LG