پاکستان نے ویزہ اسکینڈل سے متعلق برطانوی جریدے کی حالیہ رپورٹ کو ’’پروپیگنڈا‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سنسنی خیز مگر متنازع خبروں کی اشاعت کے حوالے سے شہرت یافتہ برطانوی جریدے ’دی سن‘ نے پیر کو شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان میں سرگرم ایسے گروہ کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو بھاری معاوضوں کے عوض لوگوں کو جعلی دستاویزات پر اولمپکس کے لیے قومی دستے کا رکن ظاہر کرکے لندن بھجوانے میں ملوث ہے۔
یہ اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی حکام نے اپنے طور پر ان کی تحقیقات شروع کرکے بعض مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لے لیا۔
لیکن اسلام آباد میں بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر متعقلہ حکام کی تفصیلی بریفنگ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں کوائف کا اندرج کرنے والا قومی ادارہ ’نادرا‘ برطانوی جریدے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’دی سن‘ نے مفروضے پر مبنی رپورٹ شائع کرکے پاکستان کے خلاف ’’گھناؤنا پروپیگنڈا‘‘ کیا ہے۔
’’کابینہ نے نادرا کو حکم دیا ہے کہ (یہ ادارہ) وزارت قانون کے ساتھ مشاورت کرکے فوری طور پر اس اخبار کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کرے ... ہم اس معاملے کو اس کی انتہا تک لے کر جائیں گے کیوں کہ یہ پاکستان کے وقار کا مسئلہ ہے۔‘‘
اُنھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بے بنیاد ویزہ اسکینڈل پر حکام اور قومی ذرائع ابلاغ کا ردِ عمل غیر ضروری تھا۔
’’اس پر ہمارے سرکاری اداروں کی طرف سے بھی یک لخت ردِ عمل آیا، فوری طور پر پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی جس سے یہ تاثر ملا کہ شائد واقعی کوئی قیامت آ گئی ہے۔‘‘
وزیر اطلاعات کے ساتھ نیوز کانفرنس میں نادرا کے چیئرمین طارق ملک بھی موجود تھے جنھوں نے برطانوی جریدے کی رپورٹ میں اُن کے ادارے پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔
اُنھوں نے کہا کہ محمد عملی نامی پاکستانی نژاد برطانوی شہری کو تازہ ترین کوائف اور تصویر کے ساتھ نیا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کیا گیا، جس کی بنیاد پر اُنھوں نے پاسپورٹ حاصل کیا۔
طارق ملک نے شائع شدہ رپورٹ میں دیے گئے اس تاثر کی نفی کی کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے کوائف پر اپنی تصویر چسپاں کرکے نادرا سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پھر متعلقہ ادارے سے جعلی پاسپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔
سنسنی خیز مگر متنازع خبروں کی اشاعت کے حوالے سے شہرت یافتہ برطانوی جریدے ’دی سن‘ نے پیر کو شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان میں سرگرم ایسے گروہ کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو بھاری معاوضوں کے عوض لوگوں کو جعلی دستاویزات پر اولمپکس کے لیے قومی دستے کا رکن ظاہر کرکے لندن بھجوانے میں ملوث ہے۔
یہ اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی حکام نے اپنے طور پر ان کی تحقیقات شروع کرکے بعض مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لے لیا۔
لیکن اسلام آباد میں بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر متعقلہ حکام کی تفصیلی بریفنگ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں کوائف کا اندرج کرنے والا قومی ادارہ ’نادرا‘ برطانوی جریدے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔
ہم اس معاملے کو اس کی انتہا تک لے کر جائیں گے کیوں کہ یہ پاکستان کے وقار کا مسئلہ ہے۔قمر زمان کائرہ
وفاقی وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’دی سن‘ نے مفروضے پر مبنی رپورٹ شائع کرکے پاکستان کے خلاف ’’گھناؤنا پروپیگنڈا‘‘ کیا ہے۔
’’کابینہ نے نادرا کو حکم دیا ہے کہ (یہ ادارہ) وزارت قانون کے ساتھ مشاورت کرکے فوری طور پر اس اخبار کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کرے ... ہم اس معاملے کو اس کی انتہا تک لے کر جائیں گے کیوں کہ یہ پاکستان کے وقار کا مسئلہ ہے۔‘‘
اُنھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بے بنیاد ویزہ اسکینڈل پر حکام اور قومی ذرائع ابلاغ کا ردِ عمل غیر ضروری تھا۔
’’اس پر ہمارے سرکاری اداروں کی طرف سے بھی یک لخت ردِ عمل آیا، فوری طور پر پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی جس سے یہ تاثر ملا کہ شائد واقعی کوئی قیامت آ گئی ہے۔‘‘
وزیر اطلاعات کے ساتھ نیوز کانفرنس میں نادرا کے چیئرمین طارق ملک بھی موجود تھے جنھوں نے برطانوی جریدے کی رپورٹ میں اُن کے ادارے پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔
اُنھوں نے کہا کہ محمد عملی نامی پاکستانی نژاد برطانوی شہری کو تازہ ترین کوائف اور تصویر کے ساتھ نیا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کیا گیا، جس کی بنیاد پر اُنھوں نے پاسپورٹ حاصل کیا۔
طارق ملک نے شائع شدہ رپورٹ میں دیے گئے اس تاثر کی نفی کی کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے کوائف پر اپنی تصویر چسپاں کرکے نادرا سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پھر متعلقہ ادارے سے جعلی پاسپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔