رسائی کے لنکس

پاکستان میں کرونا وائرس کی دوسری لہر میں تیزی، متعدد علاقوں میں لاک ڈاؤن


سکول کی عمارت میں داخل ہونے سے قبل طالبات کا ٹمپریچر چیک کیا جا رہا ہے
سکول کی عمارت میں داخل ہونے سے قبل طالبات کا ٹمپریچر چیک کیا جا رہا ہے

پاکستان میں کرونا وبا کی دوسری لہر میں میں شدت آ گئی ہے۔ کرونا وائرس کے فعال کیسز کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہو گئی ہے جب کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 23 افراد اس وبا کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں اور ملک بھر میں ہلاکتوں کی کل تعداد سات ہزار سے بڑھ چکی ہے۔

مزید ایک ہزار 637 نئے کیسز کے بعد مجموعی کیسز کی تعداد 3 لاکھ 46 ہزار 476 ہو گئی ہے۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں کئی اور تعلیمی اداروں کو سیل کر دیا گیا ہے جب کہ راولپنڈی کے چار علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاون کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے۔

ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ موسمی حالات میں یہ وبا مزید زور پکڑ سکتی ہے جب کہ وائرس بھی اپنی شکل تبدیل کر رہا ہے۔

پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے مطابق، گزشتہ 24 گھنٹوں میں کرونا کے 1637 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جس سے ملک بھرمیں مجموعی کیسز کی تعداد 3 لاکھ 46 ہزار 476 تک پہنچ گئی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 1لاکھ 50 ہزار 834، پنجاب ایک لاکھ سات ہزار 329، خیبر پختونخوا میں 40 ہزار 843، بلوچستان میں 16 ہزار 152 ہو گئی ہے، جب کہ گلگت بلتستان میں 4 ہزار 378 اور آزاد کشمیرمیں 4 ہزار 830 کیسز سامنے آئے ہیں۔

گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 23 اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد مجموعی اموات کی تعداد 7000 ہو گئی ہیں۔

وائرس سے بچنے کے لیے ماسک کی پابندی پر زور دیا جا رہا ہے۔
وائرس سے بچنے کے لیے ماسک کی پابندی پر زور دیا جا رہا ہے۔

سمارٹ لاک ڈاؤن کا نفاذ

وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی وبا کی شدت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور گزشتہ ایک ہفتے میں ایک ہزار 876 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ نے کرونا کیسز کے بعد اسلام آباد میں دو یونیورسٹیز کے مختلف ڈیپارٹمنٹس، ایک اکیڈمی اور تین اسکولز کو سیل کر دیا ہے۔ اب تک اسلام آباد میں 73 مختلف تعلیمی اداروں کو کرونا مثبت کیسز کی وجہ سے سیل کیا گیا ہے۔

راولپنڈی میں پانچ مختلف مقامات کو کرونا ہاٹ سپاٹ قرار دیے جانے کے بعد ان علاقوں میں 10 نومبر سے 19 نومبر تک آمد و رفت کو کنٹرول کرنے کے لئے سمارٹ لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا جائے گا۔ ان علاقوں میں فوجی فاؤنڈیشن یونورسٹی، نیو لالہ زار، گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول، کہوٹہ، سیٹلائٹ ٹاؤن اور عباسی آباد شمل ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران ان علاقوں میں تمام مارکیٹس، شاپنگ مالز، ریسٹورنٹس اور سرکاری و نجی دفاتربند رہیں گے۔ تاہم، اشیاء ضروری کی دکانیں صبح سات سے شا م سات بجے تک کھلی ر ہیں گی۔

لاہور میں 11 مختلف مقامات کی نشاندہی کی گئی جہاں سمارٹ لاک ڈاؤن کا نفاز کیا جا رہا ہے۔ لاہور میں جن علاقوں میں پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، ان میں نیو مسلم ٹاؤن، اقبال ٹاؤن کے رضا، سکندر اور عمر بلاک، گارڈن ٹاؤن کے کچھ بلاکس،کیولری گراؤنڈ،ڈی ایچ اے فیز 1 ،ڈی ایچ اے فیز 6 ،عسکری 11، انارکلی، مزنگ اور شادمان سمیت گلشن رضوی کے کچھ علاقے شامل ہیں،

ملتان میں جن علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا جا رہا ہے، ان میں نقشبند کالونی، گل گشت کالونی/ خیرآباد، میپکو کالونی،خواجہ آباد/ ملتان کچہری اور سعادت کالونی شامل ہیں،

پنجاب کے ان علاقوں کی علاوہ اسی طرح ملک کے دیگر شہروں میں بھی محدود لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔

کرونا وائرس نے اساتذہ پر بوجھ بڑھا دیا
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:06 0:00

حکومت کیا کہتی ہے؟؟

معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے تسلیم کیا ہے کہ کرونا وبا کی دوسری لہر میں شدت آ گئی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں کرونا ایس او پیز پر عملدرامد نہیں ہو رہا وں مزید سختی کی جائے گی۔

ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں یومیہ کیسز کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے، این سی او سی نے اس حوالے سے فیس ماسک کے استعمال نہ کرنے پر جرمانہ بھی عائد کیا لیکن اس کے باوجود عوام کی بڑی تعداد اس وقت غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں یہ پابندیاں مزید سخت کرنا ہون گی۔

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر افتخار برنی کہتے ہیں کہ موسمی حالات کی وجہ سے اس بیماری کے پھیلنے کا زیادہ امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کرونا کی پہلی لہر کے خاتمے کے بعد تمام لوگوں نے احتیاط چھوڑ دی جس کی وجہ سے اس کی دوسری لہر میں اب شدت آ رہی ہے اور کیسز کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔

کرونا ویکسین

کرونا وائرس ٹاسک فورس کے سربراہ اور سابق وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطاء الرحمان نے نجی ٹی وی جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ویکسین منظور نہیں ہوئی جس کیلئے 2 ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس ویکسین کی تیاری کی بات کی جارہی ہے، اسے منفی 80 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت پر رکھنا ہو گا اور پاکستان سمیت تیسری دنیا کے تمام ممالک میں منفی 80 ڈگری پر ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے۔ ویکسین کی بڑے پیمانے پر تیاری اور قیمت کا تعین بھی ایک اہم مسئلہ ہے تاکہ ویکسین عوام کیلئے قابلِ رسائی ہو اور لوگ اسے خرید بھی سکیں اور ویکسین کا اثر 2 ماہ تک برقرار رہے گا یا 3 ماہ تک، یہ بھی فی الحال معلوم نہیں ہے۔

ڈاکٹر عطاالرحمن کا کہنا تھا کہ چینی کمپنی کی ویکسین پر کلینیکل ٹرائلز کامیاب ہیں جو پاکستان کیلئے نسبتاً بہتر ہے اور اس کیلئے منفی 80 ڈگری پر ٹرانسپورٹیشن کی بھی ضرورت نہیں۔

ڈاکٹر عطاء الرحمان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس اپنی شکل تبدیل کر رہا ہے۔ جو لوگ کرونا وائرس کا شکار ہو چکے اور ان کے جسم میں اینٹی باڈیز موجود نہیں، تو ان کے کے لئے آنے والی ویکیسن فائندہ مند ہو گی۔

XS
SM
MD
LG