رسائی کے لنکس

دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی پر غور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پشاور میں اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد حملے میں 132 طالب علموں سمیت 148 افراد کی ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

پاکستانی فوج کے راولپنڈی میں صدر دفتر میں جمعہ کو ایک اہم اجلاس ہوا جس میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے فضا سازگار بنانے پر ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان تفصیلی مشاورت ہوئی۔

وزیراعظم نواز شریف نے فوج کے صدر دفتر میں ہونے والے اس غیر معمولی اجلاس کی صدارت کی۔

انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر نے ملک میں سلامتی کی مجموعی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اس اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ اعلیٰ عسکری کمانڈروں نے شرکت کی۔

پشاور میں اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد حملے میں 132 طالب علموں سمیت 148 افراد کی ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

اس حملے کے بعد وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔

اس کمیٹی کی سربراہی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کر رہے ہیں اور اس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ انٹیلی جنس اداروں کے عہدیدار بھی شامل ہیں۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس جمعہ کو ہوا۔

اُدھر صدر ممنون حسین نے بھی جمعہ کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ پشاور پر اسکول کے حملے سے دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی قوم کا عزم متاثر نہیں ہوا۔

’’پشاور میں دہشت گردی کے خلاف ہولناک واقعہ سے ہمارے دل دکھی ضرور ہیں، ہمارے بچوں کی ماؤں کی آنکھوں میں آنسو ضرور ہیں لیکن اس واقعہ نے قوم کی ہمت پست نہیں کی بلکہ ہمارے عزم اور حوصلے کو مزید پختہ کر دیا ہے۔‘‘

پشاور پر حملے کے بعد پاکستان میں سیاسی سطح پر بھی یکجہتی دیکھی گئی۔ حکومت کے خلاف احتجاج میں مصروف جماعت تحریک انصاف نے چار ماہ سے عرصے سے جاری اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق اپنے تحفظات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہا۔

اس سلسلے میں حکومت اور تحریک انصاف کے وفود کے درمیان جمعہ کو مذاکرات بھی ہوئے جس میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق تحقیقات کے طریقہ کار سے متعلق پیش رفت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ وہ حلقے جن کی طرف سے ماضی میں دہشت گردوں سے مذاکرات کے حق میں آواز بلند کی جاتی رہیں اب اُن کی طرف سے بھی پشاور میں حملے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں سے بات چیت نہیں کی جا سکتی۔

سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ پرامن مستقبل کے لیے اب غیر سنجیدگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

’’اس (پشاور) واقعے نے جو صورت حال پیدا کر دی ہے، اب مذاکرات کی بات اس وقت نہیں کی جا سکتی۔ جو اپنے آپ کو تحریک طالبان کہتے ہیں یا جنہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، مذاکرات کے امکانات کو اگر ختم کیا ہے، اُن کے اس اقدام نے ختم کیا ہے۔‘‘

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بھی پشاور میں بچوں کے قتل عام کے واقعے کی فوری اور جامع تحقیقات کرنے اور ’’قوم کی مستقبل کے قاتلوں‘‘ کے بلواسطہ یا بلاواسطہ معاونت کرنے والے تمام عناصر کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

کمیشن نے اپنے ایک بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پشاور میں بچوں پر المناک حملے کے تمام پہلوﺅں سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔

”اس امر پر سب متفق ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی ایک علاقائی مسئلہ ہے۔ اگر یہ دونوں ممالک طالبان اور دیگر دہشت گردوں سے ان کی محفوظ پناہ گاہیں چھین لیں تو ان کے پاس انسانیت کو لاحق اس سنگین خطرے کو ختم کرنے کا ایک بہترین موقع ہو گا۔‘‘

XS
SM
MD
LG