رسائی کے لنکس

پشاور ہائی کورٹ میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل کی سماعت


ڈاکٹر شکیل آفریدی (فائل فوٹو)
ڈاکٹر شکیل آفریدی (فائل فوٹو)

’’لگ بھگ آٹھ سال بعد کسی عدالت میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دی جانی والی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت شروع ہوئی ہے۔ ہمیں اب پشاور ہائی کورٹ سے نہ صرف انصاف کی توقع ہے بلکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ان کے خاندان کے ساتھ ہونے والے ظلم کے ازالے کی بھی امید ہے‘‘۔

ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک مختصر گفتگو میں کیا۔

ماضی قریب میں جمیل آفریدی نے سابق قبائلی علاقوں میں رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ٹریبونل سمیت تمام تر عدالتی نظام پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ مگر ایک روز قبل پشاور ہائی کورٹ کے ایک دو رکنی بینچ میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کے خلاف اپیل کی باقاعدہ سماعت کے بعد جمیل آفریدی خوش اور مطمئن دکھائی دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2012 میں سابق خیبر ایجنسی کی پولٹیکل انتظامیہ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی پر نہ صرف ناکردہ گناہوں کا الزام لگایا بلکہ اُنھیں 33 سال قید کی سزا بھی سنائی۔ بعد میں اس سزا میں تخفیف کر دی گئی تھی۔

جب کہ تخفیف شدہ سزا کو کالعدم کرنے کے لیے ایف سی آر ٹریبونل میں اپیل 2014 سے دائر ہے۔ اس دوران ایف سی آر ٹریبونل سماعت کرنے کی بجائے تاریخ پر تاریخ دیتا رہا ہے جس کی وجہ سے جمیل آفریدی بہت دلبرداشتہ ہو گئے تھے۔

مگر اب پشاور ہائی کورٹ میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت شروع ہونے پر وہ خوش دکھائی دیتے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر اور سینئر وکیل لطیف آفریدی کی سربراہی میں وکلاء کا ایک پینل ڈاکٹر شکیل آفریدی کی پیروی کر رہا ہے۔ پینل میں شامل قمر ندیم کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف درج الزامات اور مقدمات مفروضوں پر مبنی ہیں اور اُنھیں توقع ہے کہ پشاور ہائی کورٹ ان الزامات کو چند سماعتوں کے بعد خارج کر دے گی۔

ڈاکٹر شکیل کی گرفتاری

مئی 2011ء میں امریکی خفیہ اداروں نے ایک خصوصی آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ میں ایک بیٹے اور دو محافظوں سمیت قتل کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے لگ بھگ ایک مہینے کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی کو خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے اٹک کی حدود میں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔

خفیہ اداروں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی پر الزام لگایا تھا کہ اُنھوں نے انسداد پولیو کی جعلی مہم کے ذریعے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کی نشاندہی میں معاونت کی تھی۔ تاہم، خیبر ایجنسی کے انتظامی افسران نے ڈاکٹر شکیل کے خلاف ایک عسکریت پسند تنظیم سے معاونت کے ایک مقدمے میں 23 مئی 2012ء کو مجموعی طور پر 33 سال قید سخت اور تین لاکھ بیس ہزار روپے جرمانہ کر دیا تھا۔

حب کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی پر جس کالعدم عسکریت پسند تنظیم کے ساتھ معاونت کا الزام لگایا گیا تھا وہ انسداد پولیو مہم، افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی تعاون کے خلاف تھی۔

پولیٹیکل انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف کمشنر پشاور کی عدالت میں اپیل 23 مئی 2013ء کو دائر کی گئی جس نے ان کی 33 سال قید اور جرمانے کی سزا میں تحفیف کر دی۔

تخفیف شدہ سزا کے خلاف ایف سی آر ٹریبونل میں اپیل دائر کی گئی، جس کی طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک سماعت نہیں ہو سکی ہے۔

مئی 2018ء کو قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد ایف سی آر ٹریبونل میں تصفیہ طلب تمام مقدمات کو باضابطہ طور پر پشاور ہائی کورٹ منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل بھی شامل ہے۔

معاونت اور پیروی کرنے والوں کا پراسرار قتل

23 مئی 2012ء کو خیبر ایجنسی کی انتظامیہ کے فیصلے کے بعد پیروی کرنے والے وکلا کے پینل میں شامل ملک جرار حسین ایڈوکیٹ 8 فروری 2013ء کو ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے، چونکہ ملک جرار حسین کا تعلق شیعہ فرقے سے تھا، اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ٹھنڈا کر دیا تھا۔

اسی طرح 23 مئی 2012ء کے فیصلے کو معطل کرنے والے کمشنر پشاور صاحبزادہ محمد انیس 26 اکتوبر 2013ء کو اسلام آباد کے ایک انتہائی حساس علاقے کی ایک رہائشی عمارت کے ایک فلیٹ میں اسرار طور پر ہلاک ہو گئے۔

فیصلہ معطل کرنے کے بعد صاحبزادہ محمد انیس 29 اپریل 2013ء کو ایک خودکش حملے میں معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔

اس سلسلے میں ایک انتہائی متحرک وکیل سمیع اللہ آفریدی 17 مارچ 2015ء کو حیات آباد پشاور میں اپنی رہائش گاہ کے قریب انتہائی پُر اسرار طور پر قتل ہو گئے۔

ان تین شخصیات کے قتل کے بعد وکلا اور رشتہ دار انتہائی محتاط ہو گئے اور اس مقدمے کی پیروی کے لیے سینیئر وکیل لطیف آفریدی پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا گیا۔

خاندان پر کیا بیت رہی ہے

شکیل آفریدی کا چھوٹا بھائی جمیل آفریدی دیگر رشتہ داروں سمیت ملتان میں جب کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی بیوی بچوں سمیت پشاور میں رہائش پذیر تھیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بعد جمیل آفریدی اپنے بھائی کی رہائی کے سلسلے میں ملتان اور پشاور کے درمیان مسلسل سفر کرتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر شکیل کی اہلیہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور وہ ڈاکٹر شکیل کی گرفتاری سے قبل ایک مقامی گرلز کالج میں پرنسپل تھیں۔

تاہم، ڈاکٹر شکیل کی سزا کے بعد ان کی اہلیہ کو معطل اور سرکاری رہائش گاہ سے بے دخل کر دیا گیا۔ جب کہ زندگیوں کو لاحق خطرات کے باعث بچوں کا تعلیمی سلسلہ بھی معطل ہو گیا۔ چند سال قبل جمیل آفریدی نے انہیں ملتان منتقل کر دیا تھا جہاں وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے رہے ہیں۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی

23 مئی 2013ء کو سزا کے بعد ڈاکٹر شکیل کو کئی برس تک پشاور جیل میں رکھا گیا تھا مگر 2017ء کے آخر میں انہیں پہلے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل اور بعد ازاں ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا جہاں وہ قید تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

جمیل آفریدی اور وکلا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل سے ہر قسم کی ملاقات پر پہلے دن سے ہی پابندی ہے۔ اس دوران صرف دو بار بھائی، اہلیہ اور بچوں کو سخت سیکورٹی میں چند منٹوں کے لیے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔

حکومت کی جانب سے مقدمے کی پیروی کرنے والے سرکاری وکلا اور انتظامی عہدیدار پشاور ہائی کورٹ میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل پر کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG