رسائی کے لنکس

سادگی کی مہم اور علمی ادارے


وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس قائم کی جس کا مقصد سادگی کو فروغ دینا اور ادارہ جاتی اصلاح تھا۔ اس ٹاسک فورس نے گزشتہ ہفتے سفارشات پیش کیں کہ لاہور میں قائم اردو سائنس بورڈ اور کراچی میں قائم اردو ڈکشنری بورڈ کو اسلام آباد میں قائم ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کردیا جائے۔ اس طرح دو اداروں کی شناخت ختم ہو جائے گی اور وہ تیسرے ادارے کی شاخیں بن جائیں گے۔

اس مقصد سے منعقد کیے گئے اجلاس میں وفاقی سیکرٹری برائے قومی تاریخ اور ادبی ورثہ افتخار عارف اور اردو سائنس بورڈ کے سربراہ ناصر عباس نیر کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری کو مدعو کرنے کے بجائے آگاہ کیا گیا کہ ان کے ادارے کو ضم کرنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے۔

اجلاس میں افتخار عارف اور ناصر عباس نیر نے کہا کہ تینوں ادارے اردو کے ضرور ہیں لیکن ان کا مینڈیٹ الگ الگ ہے۔ انتظامی ادارے اور علمی ادارے میں فرق کرنا چاہیے۔ انھیں ایک دوسرے میں ضم کرنا انھیں ختم کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن ان کی دلیل کو اہمیت نہیں دی گئی۔

اردو سائنس بورڈ کے سربراہ ناصر عباس نیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں وہ بھی شریک تھے۔ اس میں اخراجات کم کرنے کی بات کی گئی۔ انھوں نے شرکا کو بتایا کہ وہ حکومت سے کوئی خاص فنڈ بھی نہیں لیتے اور کتابیں اپنے ذرائع سے چھاپتے ہیں۔ انھیں ضم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی ان اداروں کو دوسرے اداروں میں ضم کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس سے پہلے 1997 میں یہ تجویز سامنے آئی۔ پھر 2005 میں اور اس کے بعد 2009 میں کوشش ہوئی۔ ہر بار حکومت کو سمجھایا گیا کہ جب علمی اداروں کو ضم کیا جاتا ہے تو ان کی کارکردگی پر فرق آتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ادارے کے باہر کے کسی شخص کو انتظامی معاملات سونپ دیے جاتے ہیں جسے اس ادارے کے کاموں کا کچھ علم ہوتا ہے اور نہ کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔

ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے یہ کہہ کر بات کرنے سے معذرت کرلی کہ وہ سفر کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر متحرک ادیب اور شاعر اردو کے تین مختلف اداروں کی شناخت ختم کرنے کی کوشش کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

نوجوان ادیب سید کاشف رضا نے فیس بک پر لکھا کہ اداروں کو ضم کرنے سے سستی کتب تک غریبوں کی رسائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ادیبوں کو ملنے والی رائلٹی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ خسارے کی شکار پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل پر ٹیکس گزاروں کے اربوں روپے صرف کیے جا رہے ہیں جبکہ علمی و ادبی اداروں پر بجلی گرائی جا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG