پاکستان میں حالیہ دنوں میں خودکشیوں حتیٰ کہ اجتماعی خودکشی کے واقعات پررواں ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ممتاز عالم گیلانی نے بتایا کہ ان کی وزارت کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران لگ بھگ دوسو افراد نے بھوک، افلاس، سماجی انصافی اور دیگر ایسے مسائل سے دوچار ہوکر خودکشی کی۔
اس موضوع پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ تقریباً 113 افراد نے پنجاب میں، 56نے سندھ،20 نے خیبر پختون خواہ جب کہ 15 نے بلوچستان میں خودکشی کی جو ایک تشویشناک امر ہے اور جس کے تدارک کے لیے حکومت مختلف منصوبوں پر کام بھی کررہی ہے۔
ممتاز گیلانی کا کہنا ہے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ناروا سلوک اور ذیلی عدالتوں میں انصاف کے حصول میں تاخیر بھی غربت کے مارے افراد کی پریشانی میں اضافے کا باعث ہیں جو کئی افراد کو خودکشی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن ان کے بقول ان حالات کی ذمہ دار ملک کی کوئی جمہوری حکومت نہیں بلکہ اس میں زیادہ کردار فوجی آمروں کے ادوار نے ادا کیا جس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت بھی پوری طرح پروان نہیں چڑھ سکی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت غربت دور کرنے کے کئی دوسرے منصوبے بھی شروع کررکھے ہیں جب کہ ملک بھر میں ان کی وزارت ایک قومی آگاہی مہم بھی شروع کرنے جارہی ہے جس کا مقصد لوگوں کو پیغام دینا ہے کہ حالات خواہ کتنے بھی مشکل کیوں نہ ہوں ان کا مقابلہ کیا جائے کیو ں کہ خودکشی کی اجازت تو مذہب اسلام بھی نہیں دیتا۔
ٓٓٓٓعوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ خودکشیوں کے رُجحان میں کمی اور اُن کی حوصلہ شکنی کے لیے معاشی ناہمواریوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ لوگوں کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امیر اورغریب کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم حکمران اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء فاروق ستار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خودکشی کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت کو سماجی اور معاشرتی اصلاحات کے اپنے ایجنڈے پر بغیر کسی تاخیر کے عمل درآمد شروع کر نا چاہیئے۔
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماء ایاز امیر کا کہنا ہے کہ معاشی بحالی ہی سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے جب کہ اُن کا ماننا ہے خودکشیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ صاحب حیثیت افراد اپنے اردگرد ایسے لوگوں پر نظر رکھیں اور اُن کی مدد کریں جو کسی مشکل کا شکار ہے۔