رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جا سکتا: چیف جسٹس


پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی معاملہ کسی اور عدالت میں زیر التوا ہے تو بھی سپریم کورٹ کو اس پر غور سے نہیں روکا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے یہ ریمارکس جہانگیر خان ترین نااہلی کیس کی سماعت کے دوران دیئے، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔

دوران سماعت جہانگیر ترین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریفرنس لاہور ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے اور سپریم کورٹ کی سماعت سے اُن کے موکل کے حقوق متاثر ہوں گے۔

اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے دائر اختیارات کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔

جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ پنجاب ایگریکلچر ٹیکس کے قانون میں ابہام ہے اور اُن کے بقول قانون کے مطابق زرعی آمدن پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے، قانون کے مطابق لیز پر لی گئی زمین پر ٹیکس مالک ادا کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زرعی آمدن میں لیز پر لی گئی زمین کی آمدن بھی شامل ہوتی ہے۔

تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ مالک کو ٹیکس اراضی پر دینا ہوتا ہے کاشتکاری پر نہیں۔

اس پر سکندر مہمند نے کہا کہ ٹیکس کا معاملہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے،عدالت نے اس نقطے پر فیصلہ کیا تو زیرالتواء کیسز پر اثر انداز ہو گا۔

عدالت میں چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن اور ایف بی آر ظاہر کی گئی زرعی آمدن میں فرق کیوں ہے؟ جس پر سکندر مہمند نے جواب دیا کہ ٹیکس حکام نے جہانگیر ترین کی زرعی آمدن کو درست قرار دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نااہلی کا مقدمہ سن رہی ہے اور عدالت نے جہانگیر ترین کے ڈیکلریشن کاجائزہ لینا ہے کیوں کہ آمدن میں فرق اور لیز زمین ظاہر نہ کرنے پر نااہلی مانگی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر ساڑھے 18 ہزار کنال سے زائد سرکاری زمین لیز پر لینے کا ریکارڈ ناکافی قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ ایسے معاہدے مشکوک اور زمینیں بے نامی ہوتی ہیں جب کہ معزز عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو زمینوں کا مکمل ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG