رسائی کے لنکس

سوات: سول انتظامیہ کو سکیورٹی کی ذمہ داریوں کی منتقلی


پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہلانے والی وادی سوات میں امن عامہ کی بتدریج مستحکم ہوتی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے فوجی حکام نے اس علاقے میں نظم و نسق کی ذمہ داریوں کی سول انتظامیہ کو مرحلہ وار منتقلی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر یکم مارچ سے تحصیل بحرین میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں مقامی انتظامیہ کی زیر نگرانی پولیس فورس کو منتقل کی گئی ہیں۔

سوات کے ضلعی رابطہ افسر یا ڈی سی او کامران رحمٰن خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پولیس اور ایک خصوصی تربیت یافتہ لیویز فورس مشترکہ طور پر موثر انداز میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے رہیں، جبکہ علاقے کے لوگ بھی اس تبدیلی سے خوش ہیں۔

’’ہماری بھرپور کوشش ہو گی ہم اس مرحلے میں کامیاب ہوں، اور جیسے ہی دیگر علاقوں میں حالات ساز گار ہوتے ہیں ہم (فوج کے ساتھ) مل بیٹھ کے ایک لائحہ عمل ترتیب دیں گے جس کے تحت سوات بھر میں سکیورٹی کا کنٹرول سول انتظامیہ کو سونپا جائے گا۔‘‘

ڈی سی او سوات نے بتایا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی معاونت سے وادی میں دیرپا امن و امان کے لیے انتظامی ڈھانچے میں کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں جن سےآگے چل کر پورے خطے کا نظام ایک بار پھر شہری انتظامیہ کو منتقل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔

’’ضلع سوات میں ہمارے پہلے نو پولیس اسٹیشن تھے جن کی تعداد بڑھا کر 17 کر دی گئی ہے اور مزید چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔‘‘

کامران رحمٰن خان نے بتایا کہ سوات پولیس کے اہلکاروں کی مجموعی تعداد تقریباً 3,000 تک پہنچ چکی ہے، جن میں سے 638 تحصیل بحرین میں تعینات کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ خصوصی تربیت یافتہ لیویز فورس کی نفری 500 اہلکاروں پر مشتمل ہے۔

’’اس کے علاوہ سوات کی پہلے دو تحصیلیں تھیں جنھیں بڑھا کر سات کر دیا گیا ہے ... مجھے پورا یقین ہے کہ اس پولیس فورس اور انتظامی ڈھانچے کے ساتھ سوات میں دیرپا امن قائم ہوگا۔‘‘

کامران رحمٰن خان نے بتایا کہ پولیس اور لیویز فورس میں 90 فیصد سے زائد اہلکار مقامی ہیں۔ ڈی سی او سوات نے کہا کہ نئی سکیورٹی فورس کو فوج کی زیرنگرانی انسداد دہشت گردی اور انسداد شدت پسندی کی خصوصی تربیت دینے کے علاوہ انھیں بھاری اسلحہ سے بھی مسلح کیا گیا ہے تاکہ وہ فوری طور پر کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹ سکیں۔

مقامی حکام اور رہائشیوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف کامیاب فوجی آپریشن کے دو سال بعد وادی سوات میں زندگی کی رونقیں مکمل طور پر بحال ہو چکی ہیں، بازاروں میں خریداروں اور سیاحوں کا رش ہے، جب کہ تعلیمی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔

گزشتہ برس موسم گرما میں فوج کی زیر نگرانی ثقافتی میلوں اور تقاریب کے انعقاد کے بعد اس مرتبہ موسم سرما میں بھی یہ سرگرمیاں جاری رہیں اور خاص طور پر مالم جبہ میں اسکینگ کے مقابلے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہے۔

عمائدین کا کہنا ہے کہ مقامی اور بین الاقوامی کوششوں سے سوات میں ان دنوں تعلیمی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر ہیں اورطلبا و طالبات اپنے تعلیمی نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں نے سینکڑوں اسکولوں کو تباہ کر دیا تھا جبکہ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حصول تقریباً ناممکن ہو گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG