رسائی کے لنکس

حکومت شاید ابھی فوجی کارروائی کا آپشن استعمال نا کرے: تجزیہ کار


طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کاروں نے بات چیت کے عمل میں تعطل کو دور کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کرنے کی اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔

گزشتہ روز کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کے فیصلے کے بعد عسکریت پسندوں سے مذاکرات زیادہ عرصے تک جاری رہنے سے متعلق خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

جبکہ طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کاروں نے بات چیت کے عمل میں تعطل کو دور کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کرنے کی اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔

مولانا یوسف شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امید کا اظہار کیا کہ عسکریت پسندوں کے فائر بندی سے متعلق فیصلے سے مذاکرات پر اثر نہیں پڑے گا۔

’’اتار چڑھاؤ، گلے شکوے، تعطل اور ڈیڈ لاک یہ تو آتے رہیں گے۔ لیکن ہم نے اسے ختم کرنا ہے۔ ہم دونوں نے کوشش کرنی ہے کہ اس مذاکراتی عمل کو جاری رکھیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ طالبان کو بھی فائر بندی میں توسیع پر آمادہ کریں۔

طالبان کے مرکزی ترجمان نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ فائر بندی میں توسیع نا کرنے کے باوجود ان کی شوریٰ نے حکومت سے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ان کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔ یوسف شاہ کا اس بارے میں کہنا تھا۔

’’کارروائی صرف فوجی نہیں ہوتیں۔ طالبان نے جو تفصیلات بیان کی تھیں کہ 50 ہمارے آدمی مارے گئے ہیں۔ تو بہت سارے طریقے ہوتے ہیں۔ تو انہوں نے جو شکوے شکایات کی ہیں ہم کوشش کریں گے کہ انہیں دور کریں۔‘‘

طالبان کی طرف سے قیدیوں کی رہائی، پیس زون کے قیام اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائیاں روکنے کے مطالبات سامنے آئے تھے جن پر عسکریت پسندوں کے ترجمان کے بقول سنجیدگی سے غور تک نہیں کیا گیا۔

وزارت داخلہ 20 کے قریب قیدی رہا کر چکی ہے جبکہ ایک درجن مزید رہا کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

حکومتی کمیٹی کے سابق رکن اور تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں دونوں جانب سے کارروائیاں شروع ہونے کی صورت میں مذاکرات کے ماحول کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

’’جس طرح نئی پالیسی ہے جنرل راحیل شریف کی کہ وہ کہتے ہیں کہ جی ہر حملے کا جواب دیا جائے گا تو جب آرمی والے جوابی کارروائی کریں گے تو یہ سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ تو پھر تو مذاکرات کا ماحول ہی ختم ہوجائے گا۔‘‘

طالبان سے مذاکرات کے لیے محدود فضائی کارروائیاں معطل کرتے ہوئے نواز انتظامیہ نے کہا تھا کہ دوسری جانب سے حملے کی صورت میں حکومت اور فوج جوابی کارروائی کا حق رکھتی ہے۔

حکومت میں شامل عہدیدار یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے قیام امن اس کی ترجیح ہے مگر ان کی ناکامی کی صورت میں طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

تاہم تجزیہ کاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے فائر بندی میں توسیع نا کرنے کے اعلان کے باوجود نواز انتظامیہ اب بھی شدت پسندوں سے بات چیت کو ترجیح دے گی۔

رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف پر دباؤ موجود ہے اور ممکن ہے کہ طالبان کا رویہ ’’کچھ سخت‘‘ ہوجائے۔

’’طالبان کے آپس میں مسلح لڑائی ہوئی۔ لوگ مارے گئے۔ طالبان اگرچہ ان جھگڑوں کو ڈاؤن پلے کررہے ہیں مگر لوگ تو مارے گئے ان میں بھی صلح کروانی ہے اور یہ کافی سنجیدہ معاملہ ہے۔ وہ بھی وقفوں میں فائربندی کررہے ہیں۔ حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘‘

حکومت پر دباؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی پر حکومت کو ’’حزب اختلاف، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کی تنقید کا سامنا کرنا ہوگا اور پھر آرمی کی رائے بھی تو ہے‘‘۔

جمعہ کو وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے جس میں سرکاری عہدیداروں کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ اقتصادی صورتحال کے علاوہ طالبان سے مذاکرات کے تناظر میں داخلی سلامتی کے امور پر بھی گفت و شنید ہو۔
XS
SM
MD
LG