رسائی کے لنکس

'احسان اللہ احسان کے فرار پر حکومت خاموش کیوں ہے؟'


پاکستانی طالبان گروپ کا سابق ترجمان احسان اللہ احسان (فائل فوٹو)
پاکستانی طالبان گروپ کا سابق ترجمان احسان اللہ احسان (فائل فوٹو)

پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ فرار پر اب سیاسی جماعتوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ احسان اللہ احسان کا فرار ہماری حکومت کی نااہلی، ناکامی یا گٹھ جوڑ کی ایک اور مثال ہے۔ حکومت کو احسان اللہ احسان کے ملک سے فرار کا جواب دینا ہو گا۔ حکومت کو جواب دینا ہو گا کہ کہیں وہ احسان اللہ احسان کے فرار میں سہولت کار تو نہیں تھے؟

پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور لوکل میڈیا میں اس معاملہ پر مکمل خاموشی رہی ہے، تاہم بلاول بھٹو زرداری پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے اس پر اپنی رائے کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

قومی اسمبلی میں اپنے چیمبر کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کہتی تھی کہ ہمیں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہو گا اور عمران خان و دیگر سیاسی جماعتوں نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف پی پی پی کے مؤقف کا ماضی میں ساتھ نہیں دیا تاہم سانحہ اے پی ایس کے بعد اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ انتہاپسند پاکستان اور اس کے مستقبل کے دشمن ہیں۔

مگر افسوس جس شخص پر سانحہ اے پی ایس اور ملالہ یوسفزئی پر حملے کے الزامات ہیں، وہ کیسے اس ملک سے فرار ہوا؟ حکومت کو احسان اللہ احسان کے ملک سے فرار کا جواب دینا ہو گا۔ حکومت کو جواب دینا ہو گا کہ کہیں وہ احسان اللہ احسان کے فرار میں سہولت کار تو نہیں تھے؟

بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ سابق صدر کو اڈیالہ میں قید کر سکتے ہیں مگر احسان اللہ احسان کو جیل میں نہیں رکھ سکتے۔ حکومت احسان اللہ احسان کے فرار کے بعد اب کس منہ سے سانحہ اے پی ایس کے متاثرین کو جواب دے گی؟

انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے لئے آج تک کوئی جے آئی ٹی نہیں بنی۔ سانحہ اے پی ایس کے متاثرین آج بھی جوڈیشل کمشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ آج بھی پوچھ رہے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ یہ حملہ کیسے ہوا مگر اس کا جواب نہیں آتا۔

بلاول بھٹو نے سوال اٹھایا کہ ایف اے ٹی ایف پر حکومت اب کس منہ سے قانون سازی کرے گی۔ حکومت عالمی برادری کو کیا جواب دے گی کہ ہم دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ہمارا سب سے بڑا دہشت گرد ملک سے فرار ہو گیا ہے۔

احسان اللہ احسان کا تذکرہ سینیٹ کے اجلاس میں بھی ہوا، جہاں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ جس شخص نے آرمی پبلک اسکول کے سینکڑوں بچوں کو قتل کیا، وہ ملک سے چلا گیا ہے۔ جواب دینا حکومت کا کام ہے۔ بتایا جائے کہ احسان اللہ احسان کہاں ہیں اور وہ کیسے گیا۔ ہمیں اس آپریشن کی تفصیلات بتائیں جس میں احسان اللہ احسان فرار ہوا۔

مشاہد اللہ نے کہا کہ احسان اللہ احسان ایک قاتل تھا لیکن وہ کتنے آرام سے اس ملک میں رہا۔ اس نے سکول کے بچوں کو بیدردی سے قتل کیا۔ انہوں نے احسان اللہ احسان کے فرار کے بعد مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حکومتی حراست میں ہونے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے ایک وزیر نے کہا تھا کلبھوشن چلا گیا ہے۔ اب ان کا کہا درست لگتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کلبھوشن کو ٹی وی پر دکھائیں۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق نے بھی احسان اللہ احسان کے فرار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اے پی ایس کے بچوں کا قاتل احسان اللہ احسان ترکی میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہاں فواد چوہدری کہتے ہیں کہ سرعام پھانسی ظالمانہ عمل ہے۔ ان کی اپنی بات ہو تو صحافیوں کو سرعام تھپڑ مارتے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

احسان اللہ احسان کے معاملہ پر کسی بھی وزیر یا حکومتی پارٹی کے کسی رکن نے بات نہیں کی اور نہ ہی اس پر کسی حکومتی شخصیت یا ادارے نے کوئی موقف پیش کیا ہے۔

کالعدم تحریک طالبان کا سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی فوج کی تحویل سے فرار کی خبر کچھ عرصہ پہلے ایک بھارتی اخبار نے جاری تھی۔ مگر حکومت اور فوج کی طرف سے مکمل خاموشی رہی۔ پھر چند روز قبل احسان اللہ احسان کی اردو زبان میں ایک آڈیو منظرعام پر آئی جس میں اس نے بتایا کہ وہ 11 جنوری کو سیکیورٹی حکام کی حراست سے فرار ہوا۔ اس نے پاکستانی فوج پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد اس بارے میں مزید انکشافات کرے گا۔

XS
SM
MD
LG