رسائی کے لنکس

ملا عمر کا انتقال پاکستان میں نہیں ہوا: خواجہ آصف


پاکستان کے شہر کوئٹہ میں طالبان رہنما ملا محمد عمر کے لیے ہونے والی ایک تعزیتی تقریب کا منظر (فائل)
پاکستان کے شہر کوئٹہ میں طالبان رہنما ملا محمد عمر کے لیے ہونے والی ایک تعزیتی تقریب کا منظر (فائل)

وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات موخر ہوئے ہیں ختم نہیں ہوئے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کا نا تو انتقال پاکستان میں ہوا اور نا ہی اُن کی تدفین اس ملک میں ہوئی ہے۔

افغان حکومت اور افغان طالبان کی طرف سے ملاعمر کی موت کی تصدیق کے بعد پہلی مرتبہ اس معاملے پر پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدیدار کا بیان سامنے آیا ہے۔

’’ملاعمر کا پاکستان کی سرزمین پر نا تو انتقال ہوا ہے، نا اُن کی یہاں تدفین ہوئی ہے۔ اُن کے بچوں کے اور اُن کے عزیز و اقارب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ کب وہ فوت ہوئے ہیں، کب اُن کا انتقال ہوا، ابھی ہوا یا پہلے ہوا، یہ بھی ایک متنازع معاملہ ہے جس کا حصہ ہم نہیں بن سکتے۔‘‘

افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی تصدیق گزشتہ ہفتے کی گئی، جس میں افغان عہدیداروں کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ اُن کا انتقال پاکستان میں ہوا۔

تاہم افغان طالبان کے ترجمان کی طرف سے اس کی تردید کی جا چکی ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات موخر ہوئے ہیں ختم نہیں ہوئے۔

’’مذاکرات کے دو دور ہوئے، ایک دور چین میں ہوا اور ایک پاکستان میں ہوا۔ بات چیت کا تیسرا دور طے تھا جو (ملا عمر کے انتقال کی) خبر کے بعد موخر ہوا ہے مکمل طور پر ترک نہیں ہوا ہے. یہ عمل ابھی چل رہا ہے۔‘‘

پاکستان کی میزبانی میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا ایک دور 31 جولائی کو طے تھا لیکن ملا عمر کے انتقال کی خبر کے بعد اُسے موخر کر دیا گیا۔

ملا عمر کے انتقال کے بعد طالبان نے ملا اختر منصور کو نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔

طالبان کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ ملا اختر منصور کا انتخاب افغان طالبان کی مرکزی شوریٰ نے کیا لیکن ملا عمر کے بیٹے اور بھائی سمیت کئی دیگر افغان طالبان کی طرف سے ملا اختر منصور کے انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ تحریک کے نئے قائد کا انتخاب دوبارہ کیا جائے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں مذاکرات کا عمل بحال ہو اور اس میں ’’پاکستان کا مثبت کردار تاریخ کا حصہ بنے۔‘‘

’’جو ماضی میں ہمارے اوپر الزامات لگتے رہے ہیں وہ دھلیں، ہمارا اُن پر کنٹرول نہیں ہے۔ ہم یہ بالکل تسلیم نہیں کرتے کہ طالبان پر ہمارا کوئی کنٹرول ہے۔ لیکن ہمارے اُن (طالبان) کے ساتھ اس حد تک تھوڑے بہت تعلقات ہیں کہ وہ افغانستان سے گفتگو کریں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان مذاکرات میں امریکہ اور چین بطور مبصر شرکت کر رہے ہیں اور ’’پاکستان بھی اُس میں مبصر یا ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘

سات جولائی کو اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک تھے۔

افغان طالبان کے درمیان قیادت کے مسئلے پر اختلافات پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اس مسئلے میں نہیں پڑنا چاہتا۔

’’اُن میں اگر قیادت کے مسئلے پر اختلافات ہیں تو یہ بھی (طالبان کا) اندرونی معاملہ ہے۔ ہماری یہ کوشش ہو گی کہ جو بھی اُن کی قیادت ابھر کر آتی ہے وہ مصالحت یا صلح کے عمل کو جاری رکھے تاکہ (افغانستان میں) دیرپا امن قائم ہو سکے۔‘‘

امریکی عہدیداروں کی طرف سے بھی اس اُمید کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان مذاکرات جلد بحال ہو سکیں گے۔

XS
SM
MD
LG