رسائی کے لنکس

فائر بندی کے بغیر مذاکرات آگے نہیں چلا سکتے: سرکاری کمیٹی


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ قیام امن کی سنجیدہ کوششوں کی کامیابی کا تمام تر انحصار پرتشدد کارروائیو ں کے فوری خاتمے پر ہے۔

پاکستان میں سرکاری مذاکرات کاروں نے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے کہ طالبان کی طرف سے موثر انداز میں فائر بندی کے اعلان کے بغیر وہ مذاکراتی عمل کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔

چار رکنی ٹیم نے یہ بات منگل کو ایک مشاورتی اجلاس کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں کہی۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق نواز شریف نے کمیٹی کی کارکردگی کو ’’سراہا‘‘ اور انہیں آپس میں مشاورتی عمل جاری رکھتے ہوئے حکومت کی ’’راہنمائی‘‘ جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

’’ مہمند واقعے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ طالبان کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں کی بندش اور موثر عمل درآمد کے اعلان کے بغیر یہ کمیٹی مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔‘‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی صورتحال کا مکمل جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچی کہ قیام امن کی سنجیدہ کوششوں کی کامیابی کا تمام تر انحصار پرتشدد کارروائیو ں کے فوری خاتمے پر ہے۔

اتوار کو رات گئے قبائلی علاقے مہمند میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان کے ایک کمانڈر عمر خراسانی کے ایک وڈیو بیان میں 23 سکیورٹی اہلکاروں کے ’’قتل‘‘ کے دعوے کے بعد سرکاری مذاکرات کاروں نے طالبان کی مقرر کردہ ٹیم سے پیر کو ملاقات سے انکار کردیا تھا۔

سرکاری بیان میں یہ بات واضح نہیں کہ آیا بات چیت کا عمل جاری رکھا جائے گا اور فائر بندی اور اس کے موثر نفاذ سے متعلق طالبان کے نامزد کردہ نمائندوں سے رابطہ کیا جائے گا۔

تاہم وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور اور سرکاری ٹیم کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔

’’اگر کوئی مثبت پیش رفت ہوتی ہے جو ہم نے اس میں بیان کی ہوئی ہے یا وہ (طالبان کے مذاکرات کار) ہمیں کہتے ہیں کہ ہم اس طرح کی ضمانت لے کر آئے ہیں اور ہم آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘

وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں فائر بندی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا گیا کہ قوم امن کی آرزو مند ہے اور مذاکراتی کمیٹی غیر معینہ وقت کے لیے قوم کے اعصاب سے نہیں کھیل سکتی۔

مذاکرات کاروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس بات چیت عمل کے دوران انتہائی صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا مگر دوسری طرف سے حوصلہ شکن رد عمل سامنے آیا اور پرتشدد کارروائیاں بھی جاری رہیں۔

عرفان صدیقی نے تاہم فائر بندی کے مطالبے کو دہرانے کی وجوہات بتانے سے گریز کیا۔

طالبان کے مقرر کردہ مذاکرات کار یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ وہ مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کرنے کو تیار ہیں۔

’’سب کچھ حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ انکار انہوں نے مذاکرات سے کیا ہے نا۔ (مذاکراتی عمل ختم ہونے سے) فرق تو پڑے گا، نقصان تو ہوگا لیکن جسے نقصان ہے وہ اٹھائے گا ہمیں کیا ضرورت ہے۔ ہم تو کوشش کررہے ہیں کہ نقصان سے بچ جائیں۔‘‘

یوسف شاہ پہلے متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا تو اس کے ’’سنگین نتائج‘‘ ہوں گے۔

طالبان نے گزشتہ جمعہ کو کراچی میں پولیس وین پر حملے میں 13 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مزید ایسی کارروائیوں کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔

سرکاری مذاکرات کاروں سے ملاقات کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی جس میں ملک میں سلامتی کی صورتحال اور شدت پسندوں کے ساتھ تعطل کے شکار مذاکراتی عمل سے متعلق بات چیت کی گئی۔
XS
SM
MD
LG