رسائی کے لنکس

قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا الزام درست نہیں


پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کے دفتر سے جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

پاکستان نے اُن الزامات کو رد کیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں اب بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں، جن کو شدت پسند سرحد پار افغانستان میں حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کے دفتر سے جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

رواں ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کی نیوز بریفنگ میں ایک صحافی نے سوال پوچھا تھا کہ افغانستان کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں سے وہ افغانستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں محکمہ خارجہ ترجمان مارک ٹونر نے کہا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسی پناہ گاہیں ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اس بارے میں بڑے واضح انداز میں کہتا رہا ہے کہ ’’پاکستان ایسے گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نا کرے جو افغانستان میں حملے کرتے ہیں یا ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘

ترجمان مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایسی پناہ گاہوں کے خلاف کچھ کارروائی کی ہے لیکن اُن کے بقول یہ ’’مسئلہ اب بھی موجود ہے‘‘ اور اس بارے میں پاکستان سے بات چیت جاری ہے۔

تاہم جمعہ کو پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں ان الزامات کی سختی سے تردید کی گئی کہ افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اب بھی موجود ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کردار ادا کرتا رہا ہے اور عالمی برادری اس کا اعتراف بھی کرتی رہی ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے سبب افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں امن و استحکام آیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ امریکی قانون ساز اور عسکری کمانڈروں نے خود بھی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی قربانیوں کو سراہا۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی افغانستان میں تعینات امریکی افواج اور ’ریزلیوٹ سپورٹ مشن‘ کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے دہشت گردی سے متاثرہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کا دورہ کیا تھا۔

پاکستان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا۔

اُدھر اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں ملک کے صدر ممنون حسین نے کہا کہ فوجی آپریشنز کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف اگرچہ پاکستان کو نمایاں کامیابیاں ملیں تاہم اُن کے بقول شدت پسندی کے خلاف نظریے کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔

’’دہشت گردی کو جنگ کے میدان میں شکست دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس ناسور کی فکری بیخ کنی بھی ضروری ہے جس کے لیے مزید موثر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔۔۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ دہشت گردوں نے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں نفرت اور انتشار پھیلایا۔۔پسماندہ اور نسبتاً کم پڑھے لکھے افراد کی ذہن سازی کی۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندی مکمل خاتمے کے لیے طویل المدتی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔

’’اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے حکومتی اور معاشرتی سطح پر ایک جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کیے جائیں جن میں ایک ایسا نظام تعلیم بنیادی اہمیت کا حامل ہے جو معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کرے۔‘‘

پاکستان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے نا صرف ہزاروں پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان بھی پہنچا۔

XS
SM
MD
LG