رسائی کے لنکس

پاکستان میں ٹیکے کے ذریعے انسداد پولیو ویکسین دینے کا فیصلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ٹیکے کے ذریعے دی جانے والی ویکسین کی افادیت تو بلا شبہ زیادہ ہے لیکن یہ قطروں کی صورت میں پلائی جانے والی ویکسین سے قیمتاً مہنگی ہے اور اسے ڈاکٹر یا تربیت یافتہ عملہ ہی بچوں کو لگا سکتا ہے۔

پاکستان نے آئندہ سال تک ملک سے مکمل طور پر پولیو کے خاتمے کے لیے ٹیکوں کی مدد سے بچوں کو انسداد پولیو ویکسین دینے کے باضابطہ عمل کا آغاز کر دیا ہے۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق ٹیکوں کے ذریعے انسداد پولیو کی ویکسین سے ہر سال ملک بھر میں چالیس لاکھ سے زائد بچے مستفید ہوں گے اور ویکیسن دینے کے اس طریقے کو دیگر بیماریوں سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام میں شامل کر لیا گیا ہے۔

بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے ساتھ ساتھ ایک بار ٹیکے کے ذریعے بھی بچوں کو یہ ویکسین دی جائے گی جس سے پولیو وائرس کے خلاف بچوں میں قوت مدافعت مزید بڑھ جائے گی۔

دنیا کے بیشتر ملکوں میں پولیو سے بچاؤ کے لیے ویکیسین ٹیکوں کے ذریعے ہی دی جاتی ہے اور اس کے نتائج قطرے پلانے سے کہیں زیادہ بہتر آئے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ دو ملک ہیں جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

نائیجیریا کا شمار بھی ان دو ملکوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران یہاں پولیو کا ایک بھی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا جس کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ جلد ہی اسے پولیو سے پاک ملک کا درجہ مل جائے گا۔

نائیجیریا میں ٹیکوں کے ذریعے پولیو سے بچاؤ کی ویکسین دینے کا طریقہ رواں سال کے اوائل میں شروع کیا گیا تھا۔

ٹیکے کے ذریعے دی جانے والی ویکسین کی افادیت تو بلا شبہ زیادہ ہے لیکن یہ قطروں کی صورت میں پلائی جانے والی ویکسین سے قیمتاً مہنگی ہے اور اسے ڈاکٹر یا تربیت یافتہ عملہ ہی بچوں کو لگا سکتا ہے۔

لیکن طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکے کے ذریعے لگائی گئی ویکسین ایک بار لگانے سے ہی خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

گزشتہ سال پاکستان میں پولیو سے متاثرہ 306 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جو کہ 14 سالوں میں کسی ایک ہی برس میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی تعداد تھی۔

لیکن انسداد پولیو کے لیے کی جانے والی موثر کوششوں کے باعث رواں سال اس ضمن میں خاطر خواہ بہتری دیکھی جا رہی ہے اور اب تک صرف 29 بچوں میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

حکومت میں شامل عہدیدار یہ عزم ظاہر کرتے ہیں کہ رواں سال کے اواخر تک اس موذی وائرس پر قابل ذکر حد تک قابو پالیا جائے گا اور انسداد پولیو مہم کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے مقامی نمائندوں اور مذہبی رہنماؤں کو اس میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ رضا کاروں کی ٹیموں کی سکیورٹی کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔

دسمبر 2012ء سے ملک کے مختلف حصوں میں انسداد پولیو مہم سے وابستہ رضاکاروں پر شدت پسندوں کے حملوں میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور مہم میں متعدد بار تعطل کے باعث پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG