پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدام پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس برادری کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی اقدام کریں گی۔
صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری ایک عرصے سے ہدف بنا کر قتل کی وارداتوں اور مہلک دہشت گرد حملوں کا شکار رہنے کی وجہ سے شدید عدم تحفظ کا شکار چلی آ رہی ہے۔
دو سال قبل کوئٹہ میں ہونے والے مہلک بم دھماکے کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ہزارہ برادری کے نمائندے بھی عدالت عظمیٰ میں آتے رہے اور ان کی طرف سے اس برادری کو درپیش مسائل پر مبنی درخواست کو بھی اس نوٹس کا حصہ بنانے کی استدعا کی گئی تھی۔
تاہم منگل کو اس از خود نوٹس پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ہزارہ برادری کی اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے جو اقدام کیے ہیں عدالت اس سے مطمیئن ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو توقع ہے کہ حکومتیں یہ اقدام جاری رکھیں گی اور اس برادری کے جان و مال، قانونی حقوق اور جائز مفادات کے تحفظ کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گی۔
گزشتہ ماہ ہی بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ صوبائی حکومت نے ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے کئی ایک مخصوص اقدام کیے جس کے بعد سے ماضی کی نسبت ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی۔
ان کے بقول اس برادری کے افراد کو ہدف بنا کر قتل کرنے اور ان پر مہلک حملوں میں ملوث عناصر کا "قلع قمع" کر دیا گیا ہے۔
اس برادری سے تعلق رکھنے والے حکومتی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ اسی صورت میں مطمئن ہو سکتے ہیں کہ جب انھیں آزادانہ نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور کاروباری سرگرمیوں میں بلا خوف و خطر حصہ لینے کا موقع ملتا رہے گا۔
8۔ اگست کو کوئٹہ کے سول ا سپتال میں ہونے والے خود کش دھماکے میں 70 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی۔
سانحے کے بعد پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے اسی سال اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ تحرير کیا۔
فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کی جانب سے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف کمشن رپورٹ کے مشاہدے کو حذف کرنے کی استدعا کی گئی تھی جسے مسترد کردیا گیا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ سانحه کوئٹہ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ سپریم کورٹ کا حکم نامہ نہیں ہے۔ کمشن رپورٹ میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف تحقیقات کو عدالتی حکم نہ سمجھا جائے۔
کمشن رپورٹ کے مطابق چوہدری نثار اپنی وزارتی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر رہے اور سابق وزیر داخلہ نے ساڑھے تین سال کے دوران نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس بلایا تھا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے چوہدری نثار کے خلاف کمشن کی آبزرویشنز کو ذاتی قرار دیا تھا، ان کے خلاف آبزرویشنز کمشن کی تحقیقات پر مشتمل ہیں۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق نیکٹا کو مکمل طور پر فعال کر دیا گیا اور کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ بلا شبہ کوئٹہ میں دہشتگردی کا واقعہ ایک قومی سانحه تھا جس کے باعث متعدد مسائل نے جنم لیا۔