رسائی کے لنکس

دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کا دفاع


دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کا دفاع
دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کا دفاع

جنرل اسمبلی سے خطاب میں حنا ربانی کھر نےاُن الزامات کا بھی جواب دیا جو حالیہ دِنوں میں امریکہ کی طرف سے پاکستان پر لگائے گئے ہیں، یعنی یہ کہ پاکستان افغانستان میں حقانی گروپ کی مدد کر رہا ہے

پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے منگل کی دوپہر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سےاپنے خطاب میں سب سے زیادہ وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کی صورتِ حال پر لگایا۔ اُنھوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں ، سیلاب کی تباہ کاریوں اور افغانستان سے لے کر فلسطینیوں کی اقوام متحدہ کی رکنیت تک تمام موضوعات پر پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔

حنا ربانی کھر نے پاکستان کا مؤقف بیان کرتے ہوئے اُن الزامات کا بھی جواب دیا جو حالیہ دِنوں میں امریکہ کی طرف سے پاکستان پر لگائے گئے ہیں، یعنی یہ کہ پاکستان افغانستان میں حقانی گروپ کی امداد کر رہا ہے۔

اُن کے بقول، علاقے کےغیر مستحکم حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جذبات بہت بھڑکے ہوئے ہیں، مگر ہمیں اپنے مقاصد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔ ’یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ قریبی اور ذمہ دارانہ ساتھیوں کی طرح کام کریں اور ایک دوسرے کے خلاف رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کریں‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حالات بہت پیچیدہ ہیں اور امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اسٹریٹجک حالات میں یکجہتی بے حد ضروری ہے۔ پاکستان پر اکثر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اُس کے خفیہ ادارے افغانستان میں دخل اندازی کرتے ہیں اور امن کے عمل کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کو ایک خودمختار ریاست دیکھنا چاہتا ہے۔اُن کے بقول، ’پاکستان افغانیوں کی سربراہی میں امن کے ایسے عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے جو خود افغانیوں کے ہاتھ میں ہو‘۔

اُنھوں نے دنیا کو یاد دلایا کہ اِس جنگ میں پاکستان کے ہزاروں شہری اور فوجی جوان ہلاک ہو چکے ہیں۔

بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کو’ خوش آئند‘ قرار دیتے ہوئے، وزیر خارجہ نے کشمیر یوں کے انسانی حقوق کی حمایت کا اعلان کیا۔ البتہ، اُنھوں نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کرنے کی بات نہیں کی۔ اُنھوں نے کہا کہ ،خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اِس مسئلے کا ایک ایسا پُر امن حل تلاش کیا جائے جو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق ہو۔

ہر سال، اِس بات پر خاص توجہ دی جاتی ہے کہ جنرل اسمبلی میں پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر کیا مؤقف اختیار کیا ہے، کیونکہ اِسے پاکستانی حکومت کی پالیسی یا اُس میں کسی ردو بدل کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے۔ لیکن، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اِس رویے میں نرمی دیکھی گئی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر نہ کیا گیا۔ گذشتہ برس، پاکستان اور بھارت میں تلخی بڑھی تو سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک دفعہ پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر زور دیا اور نیو یارک میں انڈین وزیر خارجہ سے ملاقات بھی نہ کی۔ اب ایک دفعہ پھر پاکستان کے رویے میں تبدیلی نظر آئی ہے۔ نہ صرف حنا ربانی کھر کے خطاب سے بلکہ اُن کی طرف سے نیو یارک میں دی گئی دعوت میں بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت سے۔

اِس خطاب میں حنا ربانی کھر نے سلامتی کونسل کی رکنیت کے لیے دنیا سے مدد چاہی۔ 21اکتوبر کو متوقع انتخابات میں پاکستان کا مقابلہ کرغیزستان سے ہے۔

اِس کے علاوہ، اُنھوں نے فلسطینیوں کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی حمایت کی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں پاکستان کی امداد کرنے پر دنیا کا شکریہ ادا کیا۔

اِس خطاب کے بعد، پاکستانی وزیرِ خارجہ منگل کی رات کو ہی پاکستان کے لیے روانہ ہو جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG