رسائی کے لنکس

پاکستان کی کلیدی نان۔ نیٹو اتحادی کی حیثیت خطرے میں


پچھلے ہفتے امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے ایک سماعت کے دوران یہ کہا تھا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ طالبان کی حمایت کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر کام کرنے کی کوشش کرے گی‘۔ تاہم اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ آخری کوشش کامیاب نہیں ہوتی تو پھر صدر ٹرمپ جو بھی اقدامات ضروری سمجھیں گے، وہ اختیار کریں گے۔

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب گزشتہ دنوں کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تو اُس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان سے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے کچھ تازہ ہوا کے جھونکے محسوس کئے جانے لگے۔ افغان صدر نے ملاقات کے دوران پاکستان کا دورہ کرنے کی پیشکش بھی قبول کر لی تاکہ بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایا جا سکے۔

تاہم کچھ ہی دیر میں یہ تاثر ہوا میں تحلیل ہوتا دکھائی دینے لگا جب افغانستان میں تجزیہ کاروں ، سیاستدانوں اور سابق سرکاری اہلکاروں نے اس کے بارے شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔

جنرل باجوا نے افغان صدر سے ملاقات کے دوران افغان فوج کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قیام امن اور سیکورٹی کے حوالے سے مدد کی پیشکش کی۔ اس ملاقات کے فوراً بعد افغان اہلکاروں نے اسے بہت مثبت، تعمیری اور حوصلہ افزا قرار دیا تھا۔ لیکن کچھ مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے یہ اقدام امریکی دباؤ کے تحت اُٹھایا گیا۔

اس ملاقات سے قبل افغانستان کے سابق انٹیلی جنس چیف رحمت اللہ نبیل نے کہا تھا کہ پاکستان یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اُس کا رویہ تبدیل ہو چکا ہے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ ملاقات اور اس میں کی گئی پیشکش محض ایک ’دھوکہ‘ ہے۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ایک قریبی معاون جاوید فیصل کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کی طرف سے افغانستان کی حمایت کے حوالے سے اُن کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئی کسی بھی افغان شخص کو خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئیے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کی نئی حکمت عملی کے تناظر میں ایک موقع ضرور پیدا ہوا ہے جس کا اظہار پاکستان کے آرمی چیف کے دورہ کابل اور افغان صدر اشرف غنی سے صاف گوئی کے ساتھ بات چیت سے ہوتا ہے۔ جاوید فیصل کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے رویے میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں ہوتی تو وہ دنیا میں تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان کے ایک انتہا پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کی درپردہ حمایت کرتا ہے جس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے متعدد مختلف انداز کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران اس پس منظر میں امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر سے ملاقاتوں میں امریکہ کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سختی کے ساتھ اس کی تردید کی۔ اس کے علاوہ افغانستان کو مالی اور مادی امداد کی پیشکش کے ساتھ ساتھ حساس سرحدی علاقوں میں دہشتگردوں کی مشترکہ نگرانی اور 1,800 میل لمبی سرحد پر باڑ لگانے کا اعلان کیا ۔

تاہم اب تک دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے کوئی بھی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ پچھلے ہفتے امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے ایک سماعت کے دوران یہ کہا تھا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ طالبان کی حمایت کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر کام کرنے کی کوشش کرے گی‘۔ تاہم اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ آخری کوشش کامیاب نہیں ہوتی تو پھر صدر ٹرمپ جو بھی اقدامات ضروری سمجھیں گے، وہ اختیار کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو کلیدی نان۔نیٹو اتحادی کی حیثیت سے ہی محروم کر دے۔

پاکستان نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ افغانستان کے مخالف عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی قیام امریکہ کے دوران واضح طور پر یہ بات کی کہ پاکستان سے دہشت گردوں کا مکمل طور پر صفایا کر دیا گیا ہے اور اب جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ ایسے عناصر کی طرف سے ہو رہی ہے جو افغانستان کے اُن علاقوں میں رہتے ہیں جہاں افغان حکومت کی عملداری نہیں ہے۔ بقول خواجہ آصف کے، افغانستان میں 40 فیصد علاقہ حکومت کے اختیار سے باہر ہے جہاں دہشت گردوں کا مکمل کنٹرول ہے۔

تاہم پاکستان کے اندرونی حلقوں میں امریکہ کی نئی حکمت عملی کے بارے میں سخت رد عمل پایا جاتا ہے۔ ملک کے ایک معروف انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں پاکستان کے سابق سفیر منیر اکرم نے لکھا ہے کہ پاکستان کیلئے امریکہ کے ساتھ رابطے بڑھانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوں گی۔ اُنہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجنے اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں افغانستان کی حمایت میں نہیں کی جارہیں بلکہ اس کا مقصد خطے میں بھارت۔ امریکہ کے مشترکہ اثرورسوخ کو بڑھانا ہے۔

منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کی طرف سے عائد ہونے والی متوقع پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنی چاہئیے اور اس سلسلے میں پاکستان کو خود اپنی ریڈ لائینز کا تعین کرنا ہو گا کیونکہ کسی کمزوری کا اظہار امریکی خدشات کو کم کرنے کے بجائے اُن میں اضافہ کر دے گا۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے کی صورت حال کے بارے میں افغانستان اور پاکستان کے تصور میں بہت اختلاف ہے جسے پاٹنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کا خیال ہے کہ اسے طالبان سے خطرہ ہے جن کی پاکستان حمایت کرتا آیا ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے وجود کیلئے خطرے کی علامت ہے اور افغانستان سے بھارت کی قربت اس خطرے میں اضافہ کر رہی ہے۔

افغان انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے صدر داؤد مورادئن کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی طرف سے افہام و تفہیم کے پیغامات کے باوجود اُن میں اس بات پر یکسر اختلاف ہے کہ خطے میں دہشت گردی کا مسئلہ کیونکر حل کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو سامنے آتا دکھائی نہیں دیتا۔ یوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مکمل دوستانہ تعلقات کا قیام فی الحال ایک خواب ہی رہے گا۔

XS
SM
MD
LG