رسائی کے لنکس

افغان امن عمل، امریکی معاون وزیر خارجہ کی پاکستان آمد


زلمے خلیل زاد اور جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایکس ویلز ایک اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچ گئی ہیں۔ 29 اپریل 2019
زلمے خلیل زاد اور جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایکس ویلز ایک اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچ گئی ہیں۔ 29 اپریل 2019

پاکستان اور امریکہ کے حکام نے افغانستان میں امن کے قیام اور خطے کی مجموعی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور امریکہ کی معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز امن عمل کو آگے بڑھانے کی کاوشوں کے سلسلے میں پیر کو کابل سے اسلام آباد پہنچیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں پاکستانی وفد کی قیادت وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے امریکہ آفتاب کھوکھر نے کی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق زلمے خلیل زاد کا یہ دورہ افغان امن اور مفاہمت کے لیے بین الاقوامی حمایت کے حصول کی کوششوں کا حصہ ہے۔

امن کے لیے جنگ بندی ضروری ہے

زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ اگر افغانستان میں امن لانا ہے تو طالبان کو اپنا طریقہ کار بدل کر جنگ بندی پر اتفاق کرنا ہو گا۔

دورہ کابل کے دوران افغان نیوز چینل طلوع نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اپنی شرائط لاگو کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کا مطلب امن کی بجائے جنگ جاری رکھنا سمجھا جائے گا۔

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ان کی تمام تر توجہ دہشت گردی کے خاتمے پر ہے۔ مستقل جنگ بندی کے بغیر دیرپا سمجھوتہ طے نہیں پا سکتا۔ ان کے بقول امن کے ذریعے ہم غیر ملکی افواج کو افغانستان سے انخلا کا موقع دینا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ 14 ہزار امریکی فوجی نیٹو افواج کا حصہ ہیں جن کا مقصد افغانستان کی مقامی فورسز کو تربیت اور معاونت فراہم کرنا ہے۔

افغان لویہ جرگہ کا اجلاس

زلمے خلیل زاد کا جنگ بندی سے متعلق بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز بعد افغانستان میں لویہ جرگہ شروع ہو رہا ہے۔ لویہ جرگہ افغانستان کے مختلف قبائل پر مشتمل افراد کا ایک مشاورتی اجتماع ہے جس میں دو ہزار سے زائد عمائدین، علما اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی نمائندے عمر داؤد زئی کا اتوار کو ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ لویہ جرگہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کرے گا۔

افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سمیت کئی اعلیٰ افغان عہدیداروں نے چار روزہ لویہ جرگہ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔

عبداللہ عبداللہ کا گلہ ہے کہ لویہ جرگہ کے انعقاد سے قبل ان کی ٹیم سے اس سے متعلق مشاورت نہیں کی گئی تھی۔

تاہم صدر اشرف غنی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ وہ عبداللہ عبداللہ اور دیگر عہدیداروں کو لویہ جرگہ میں شرکت پر قائل کر لیں گے۔

صدر اشرف غنی نے ہفتے کو زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی تھی جس میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔

یہ بیان امریکہ، روس اور چین کے ایک مشترکہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس پر انہوں نے افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا اور تمام افغانوں کی شرکت کے ساتھ افغان امن عمل پر اتفاق کیا ہے۔

خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کر چکے ہیں۔ اب وہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

طالبان تاحال کابل حکومت سے بات چیت پر آمادہ نہیں ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ وہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا سے پہلے کابل حکومت سے بات نہیں کریں گے۔

خلیل زاد افغان امن کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بار پھر خطے کے دورے پر ہیں اور وہ اس دوران قطر بھی جائیں گے جہاں طالبان وفد کے ساتھ ان کی ملاقات متوقع ہے۔

امریکہ کے خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ واشنگٹن افغانستان میں اپنے اخراجات اور اپنی فورسز کو لاحق خطرات کے خاتمے کا خواہاں ہے۔

XS
SM
MD
LG