رسائی کے لنکس

کارروائی نہ کرتے تو داعش شمالی وزیرستان میں جگہ بنا لیتی: سرتاج عزیز


شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب میں شریک پاکستانی فوجی (فائل)
شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب میں شریک پاکستانی فوجی (فائل)

پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے، افغانستان اور خطے میں امن کے لیے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ناگزیر ہیں جن میں فروغ کے لیے مزید مذاکرات اور رابطوں کی ضرورت ہے۔

یہ بات انھوں نے بدھ کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے تعاون سے غیررسمی سفارتکاری سے متعلق منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہی۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مدوجزر کا شکار تو رہے ہیں لیکن گزشتہ برس ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے زراعانت روکے جانے اور پاکستان کے لیے امداد کو مشروط کرنے جیسے معاملات پر دو طرفہ تعلقات میں سردمہری دیکھی جا رہی ہے۔

واشنگٹن یہ بھی زور دیتا آ رہا ہے کہ اسلاآباد، پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے خاص طور پر افغانستان میں تخریبی کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے جب کہ پاکستان کا استدلال ہے کہ وہ پہلے سے ہی تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہا ہے۔

تقریب سے خطاب میں سرتاج عزیز نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جاری پاکستانی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کارروائیوں کی بدولت نہ صرف دہشت گردی میں 70 فیصد کمی آئی بلکہ ان کے بقول داعش جیسے دہشت گرد گروپ یہاں قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

"اگر 2014ء اور اس کے بعد تک ہم آپریشن ضرب عضب نہ کرتے تو داعش کو شمالی وزیرستان میں اڈہ بنانے کے لیے ایک زرخیز خطہ مل جاتا۔"

انھوں نے امید کا اظہار کیا کہ سلامتی اور اقتصادی صورتحال کی بہتری سے دونوں ملکوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات کو مزید فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر دو طرفہ تعاون میں اضافے اور خطے میں مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے کام کرنے کا منتظر ہے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے لیے امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل کا کہنا تھا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ، اقتصادی صورتحال میں بہتری اور افغانستان سمیت خطے کو مزید مستحکم و خوشحال بنانے جیسے مشترکہ اہداف کے لیے دوطرفہ تعاون میں اضافہ ضروری ہے۔

پاکستان کے امور کی ماہر اور سابق امریکی سفارتکار رابن رافیل بھی اس تقریب میں شریک تھیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سرکاری سطح کے علاوہ غیر رسمی رابطوں سے بھی دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔

"یہ غیرسرکاری مذاکرات ہیں، ہم اپنی بات چیت کے نتائج سے پاکستان اور امریکہ کی حکومتوں کو آگاہ کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ انھیں سنجیدگی سے لیں گے۔"

ان کا کہنا تھا کہ پرامن افغانستان، پاکستان اور امریکہ دونوں کے ہی مفاد میں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں کی سوچ میں ماضی میں بعض اوقات اختلافات دیکھنے میں آتے رہے لیکن اب واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں ہی اس مشترکہ مقصد کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG