دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا اور اس موقع پر حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی پالیسی جلد متعارف کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
تاہم سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے بہت سا کام کرنا باقی ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد پابندی اٹھائے جانے کے بعد 300 سے زائد افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے جس پر انسانی حقوق کی ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ کیا۔
ان کا مؤقف ہے کہ سزاؤں پر عملدرآمد کے نتیجے میں متعدد ایسے کیس سامنے آچکے ہیں جن میں مجرموں کے انسانی حقوق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش حالات میں قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد ناگزیر ہے اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے جانے کے بعد ہی مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔
ادھر امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کی گئی انسانی حقوق سے متعلق سالانہ عالمی رپورٹ میں پاکستان کے مختلف حصوں، بالخصوص وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)، کراچی اور بلوچستان میں جاری تشدد کے حوالے سے کہا گیا کہ اس سے ناصرف عام شہریوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہے بلکہ دہشتگردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے بھی شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو انسانی حقوق کے کئی مسائل درپیش ہیں۔
’’میں سمجھتی ہوں کہ ایک جبری طور پر غائب کیے گئے افراد کا مسئلہ ہے۔ اس کو ترجیحات میں نہیں رکھا جا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ جو ملک کے اندر بے گھر ہونے والے افراد ہیں جو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب سے دربدر ہوئے ہیں۔ میں اس آپریشن کی حمایت کرتی ہوں مگر میں سمجھتی ہوں کہ حکومت خیبر پختونخوا اور مرکزی حکومت نے اتنی تک توجہ نہیں دی اور ترجیحات میں شامل نہیں کیا کہ تیرہ لاکھ بے گھر ہونے والے افراد کس صورتحال میں ہیں۔‘‘
تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے جبری گمشدگیوں، اقلیتوں کے حقوق اور قانون کا نفاذ بڑے مسائل تھے۔
’’ہم نے جبری گمشدگیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ بہت بہتر طریقے حل کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے بھی اس پر عملدرآمد کریں گے تو پھر صورتحال زیادہ بہتر ہو سکتی ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر وزارت انسانی حقوق کی جانب سے ایک کانفرنس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفراللہ خان نے کہا کہ حکومت جلد انسانی حقوق کی پالیسی متعارف کرائے گی جس میں عورتوں، بچوں اور معمر افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات شامل ہوں گے۔ انہوں نے بچوں کے حقوق کے لیے ایک قومی کمیشن کی تشکیل کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ وزیر اعظم نواز شریف نے انسانی حقوق کی وزارت کو بحال کرکے بیرسٹر ظفراللہ کو اس کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس سے قبل حکومت نے انسانی حقوق کے محکمے کو وزارت قانون و انصاف میں ضم کر دیا گیا تھا۔