رسائی کے لنکس

لاہور: پسند کی شادی پر عدالت کے باہر خاتون قتل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پولیس کے مطابق لڑکی کے گھر والوں نے اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اسے اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا۔

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں منگل کو ایک جواں سال خاتون کو اس کے والد اور بھائیوں نے اینٹوں سے حملہ کر کے ہلاک کردیا۔

لاہور پولیس کے ایک ڈپٹی سپریٹنڈنٹ رانا محمود الحسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فرزانہ نامی لڑکی اپنے گھر والوں کی طرف سے اپنے شوہر کے خلاف اغوا کا مقدمہ خارج کروانے کے لیے عدالت عالیہ پہنچی تھی جب یہ واقعہ پیش آیا۔

"لاہور ہائی کورٹ میں یہ وکیل کے دفتر سے نکلے تو وہاں موجود اس کے بھائیوں نے اس کو مارنا شروع کردیا، پھر کسی نے ہوائی فائر بھی کی اور وہاں موجود لوگوں نے جب اسلحہ وغیرہ چھین لیا تو پھر انھوں نے لڑکی کو اینٹیں مار کر ہلاک کردیا۔"

پولیس عہدیدار نے اس سارے معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فرزانہ نامی لڑکی کا تعلق ضلع ننکانہ کے علاقے سید والا سے تھا اور اس نے اپنی پسند سے اقبال نامی شخص سے شادی کی تھی۔

اس شادی پر لڑکی کے گھر والوں نے اقبال پر فرزانہ کو اغوا کرنے کا مقدمہ درج کروایا تھا لیکن بعد میں لڑکی نے یہ بیان دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی۔ اسی مقدمے کو خارج کروانے کے لیے فرزانہ منگل کو لاہور ہائی کورٹ آئی ہوئی تھی۔

رانا محمود الحسن کے مطابق لڑکی پر حملہ کرنے والے اس کے دو بھائیوں اور والد کو حراست میں لے لیا گیا اور واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔

اپنی مرضی یا پسند کی وجہ سے گھر والوں یا رشتہ داروں کے ہاتھوں خاتون کے قتل کا نہ تو پاکستان میں یہ پہلا اور نہ ہی انہونا واقعہ ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں۔

حقوق نسواں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق ایسے واقعات میں اضافے کی وجہ جہاں ایک طرف قوانین پر موثر عملدرآمد کا نہ ہونا ہے وہیں معاشرتی مسائل اور مرد کی اجارہ داری والے سماج میں ایسے واقعات بیمار سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

ایک سرگرم کارکن فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ایسی ذہنیت رکھنے والوں کا حوصلہ اور بڑھتا ہے جس کا نتیجہ خواتین کے خلاف تشدد اور یہاں تک کے ان کے قتل جیسے واقعات کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔

مبصرین یہ کہتے آئے ہیں کہ قوانین پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں اور خواتین سے متعلق منفی سوچ کے خاتمے کے لیے تمام طبقہ فکر کے لوگوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
XS
SM
MD
LG