رسائی کے لنکس

تیزاب حملوں پر حقوق انسانی کے کارکنوں کی تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

قومی کمیشن برائے خواتین کے سربراہ خاور ممتاز کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ملک میں تیزاب سے حملہ کرنے کے خلاف قانون میں سختی کے باوجود ایسے واقعات میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں رواں ہفتے 24 گھنٹوں سے کم وقت میں خواتین پر ایک ہی طرز کے دو مختلف حملوں پر جہاں حقوق انسانی کے کارکن تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہیں ان واقعات نے متعلقہ اداروں کی کارکردگی اور ان کی روک تھام کے لیے عہدیداروں کے بقول سخت قوانین کے نفاذ سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا۔

قومی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ خاور ممتاز کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ملک میں تیزاب سے حملہ کرنے کے خلاف قانون میں سختی کے باوجود ایسے واقعات میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔

’’یہ ایک منظم طریقے سے ہو رہا ہے۔ یہ ایسا نہیں کہ کسی کو غصے آیا اور اس نے کر دیا۔ اب اسے نمٹنا بھی ایک منظم طریقے سے ہو گا۔ اس میں بعض اوقات گھر والے بھی شامل ہوتے ہیں کیونکہ صدیوں سے ایک کنٹرول چلا آ رہا جو وہ نہیں چھوڑ رہے۔‘‘

2011ء میں پارلیمان نے تیزاب کے حملوں کے خلاف قانون میں سزا کو چودہ سال قید اور جرمانے کی حد کو دس لاکھ روپے تک بڑھا دیا تھا۔ جب کہ ساتھ ساتھ مجرم کو حملے میں ضائع ہونے والے اعضا کا معاوضہ بھی ادا کرنا ہو گا۔

انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے مطابق گزشتہ سالوں میں تیزاب سے حملہ کرنے کے واقعات میں دو گنا اضافہ ہوا ہے اور خاور ممتاز کا کہنا تھا کہ ایسے 80 فیصد حملوں میں خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پنجاب اسمبلی کی سابقہ رکن حمیرا اویس شاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تیزاب کی خرید و فروخت پر موثر نگرانی نا ہونے کی وجہ سے بھی ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’’تیزاب ایک ہتھیار ہے۔ یہ اتنے کم پیسوں پر دستیاب ہے تو کوئی بھی اسے اٹھا کر استعمال کر سکتا ہے۔ بلوچستان والے واقعے سے ایک نیا رجحان بن رہا ہے۔ پہلے تو لوگ نفرت کے تحت عورت پر تیزاب پھینکتے تھے مگر یہاں تو تیزاب کو دہشت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے کہ وہ عورتیں باہر نا جائیں، اسکول نا جائیں۔‘‘

پیر اور منگل کو موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آوروں نے کوئٹہ اور مستونگ شہروں میں چھ خواتین پر تیزاب پھینک کر اُنھیں اس وقت زخمی کیا جب وہ بازار سے خریداری کے بعد گھر جا رہی تھیں۔

بلوچستان کو عمومی طور پر قبائلی اقدار و رسومات کا معاشرہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے یہاں ایسے واقعات کم و بیش ہی وہاں سامنے آئے ہیں۔

قومی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ کا اس بارے میں کہنا تھا۔

’’یہ جرم ہے سب تسلیم کرتے ہیں مگر اس کا ازالہ کیا ہے، آدھے سے زیادہ کو پتہ ہی نہیں۔ صوبوں کے پاس مشینری ہی کیا ہے انہیں نافذ کرنے کی پولیس کو اس قانون کے بارے میں پتا ہی نہیں ہو گا۔‘‘

پاکستان کی نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں ان کے بنیادی حقوق اور انہیں معاشرے میں برابری کی حیثیت دیے بغیر ملک و معاشرے کی ترقی ممکن نہیں۔

XS
SM
MD
LG