رسائی کے لنکس

صحافیوں کے قتل کی پیروی کے لیے خصوصی ٹربیونل تشکیل دینے کا مطالبہ


عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر اسلام آباد میں صحافیوں کا مظاہرہ
عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر اسلام آباد میں صحافیوں کا مظاہرہ

افضل بٹ کا کہنا تھا کہ اگر مارنے والا یہ سمجھ لے کہ ایک دس روپے کی گولی ہے اس (صحافی) کے جسم کے آر پار کر دی جائے تو پھر اس طرح کے جرائم بڑھتے رہیں گے۔

دنیا بھر کی طرح بدھ کو پاکستان میں بھی آزادی صحافت کا عالمی دن منایا گیا اور اس موقع پر ایک بار پھر صحافتی تنظیموں کی طرف سے اس شعبے سے وابستہ افراد کے لیے خوف سے پاک ماحول فراہم کرنے کے مطالبات کو دہرایا گیا۔

صحافیوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت کی صورتحال میں ماضی کی نسبت بہتری تو آئی ہے لیکن یہاں صحافیوں کو درپیش سنگین خطرات بدستور موجود ہیں۔ پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔

صحافیوں کی ایک بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کہتے ہیں کہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران صحافیوں کو درپیش خطرات اپنی جگہ لیکن جب تک صحافیوں کے قتل میں ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدام نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک صحافیوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اب تک صرف تین صحافیوں کے قتل کے مقدمات عدالتوں میں گئے ہیں جب کہ باقیوں کے ذمہ داروں کا تعین ہی نہیں کیا جا سکا ہے۔

"آج بھی اگر صحافیوں کے قاتلوں کو سزا ملنا شروع ہو جائے تو سزا سے بچنے کا تاثر ختم ہو سکتا ہے۔ اگر مارنے والا یہ سمجھ لے کہ ایک دس روپے کی گولی ہے اس (صحافی) کے جسم کے آر پار کر دی جائے تو پھر اس طرح کے جرائم بڑھتے رہیں گے۔"

1990ء سے لے کر اب تک پاکستان میں 115 صحافی مارے جا چکے ہیں جن میں دہشت گردی کے واقعات میں موت کا شکار ہونے والوں کے علاوہ وہ صحافی بھی شامل ہیں جنہیں ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔

افضل بٹ نے صحافیوں کے ایک دیرینہ مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ اس شعبے سے وابستہ افراد کے خلاف جرائم کی سماعت کے لیے خصوصی ٹربیونل تشکیل دیے جائیں۔

"کسی سرکاری ملازم کے کام میں مداخلت کی جائے تو کار سرکار میں مداخلت کی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو جاتا ہے لیکن اگر ایک صحافی کو مار دیا جائے تو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔دھمکیاں دینا، خبر روکنا، راستے میں پیچھا کرنا یہ معمولی باتیں ہیں اب صحافی اس کا نوٹس بھی نہیں لیتے ۔۔۔ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ اب تک جو لوگ مارے گئے ان کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے سپیشل ٹربیونل قائم کرے۔"

دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے کارکنان کو محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے تا کہ آزادی صحافت کو یقینی بنایا جا سکے۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ حکومت قانون سازی کر رہی ہے جس میں صحافتی برادری کے تحفظ و فلاح و بہبود اور ان کے خلاف ہونے والے جرائم کے مقدمات کی پیروی کے لیے اقدام شامل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کے لیے بھی ایک بہتر مسودہ قانون متعارف کروایا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG