رسائی کے لنکس

ڈرون حملوں میں کمی خوش آئند ہے: پاکستانی قانون ساز


قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت بشمول وزیراعظم اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ امریکہ ڈرون حملے مکمل طور پر بند کرے۔

پاکستان میں اراکین پارلیمان نے امریکہ کے ایک موقر واشنگٹن پوسٹ اخبار میں شائع ہونے والی اُس خبر کو خوش آئند پیش رفت قرار دیا ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے تناظر میں ڈرون حملے نہ کرنے کی درخواست پر اوباما انتظامیہ نے جاسوس طیاروں کی کارروائیوں میں قابل ذکر کمی کی ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت بشمول وزیراعظم نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ امریکہ ڈرون حملے بند کرے۔

’’پہلے جو امن بات چیت شروع ہونی تھی اس کے بعد ایک ڈرون حملہ ہوا تو وہ تعطل کا شکار ہو گئیں۔ اب تعطل کے بعد جب دوبارہ یہ مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں تو پاکستان کا موقف یہ ہی تھا کہ ایسی کوئی کارروائی نا کی جائے جس سے دوبارہ یہ خطرہ ہو۔ امریکہ نے اگر یہ فیصلہ کیا تو یہ بڑی خوش آئند چیز ہے۔‘‘

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اُن کی جماعت تحریک انصاف بھی یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے عمل کے دوران امریکہ ڈرون حملے بند کرے۔

’’اب اگر امریکہ نے بھی یہ عندیہ دیا ہے اور واشنگٹن پوسٹ اُس طرف اشارہ کر رہی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے اور (مذاکرات کے) ماحول کو ساز گار بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہو گی۔‘‘

پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ گزشتہ سال نومبر میں طالبان سے مذاکرات کے لیے ابتدائی رابطوں سے ایک روز قبل ہی امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔

وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے ہی قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کو ایک اور موقع دینا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت نے چار رکنی کمیٹی بھی قائم کی۔

حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی اور طالبان کی نامزد تین رکنی کمیٹی کے درمیان منگل کو اسلام آباد میں مذاکرات ہونا تھے لیکن عین وقت پر یہ نا ہو سکے۔

سرکاری کمیٹی نے طالبان کی نامزد مذہبی شخصیات کی کمیٹی کے اختیارات سے متعلق کچھ وضاحتیں طلب کی تھیں۔ توقع ہے کہ رواں ہفتے دونوں کمیٹیاں دوبارہ ملاقات کریں گی لیکن اس کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
XS
SM
MD
LG