رسائی کے لنکس

پاکستانی میڈیا کا کردار اور ذمہ داریاں


ہما یوسف
ہما یوسف

گذشتہ دس برسوں میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا نے تیزی سے ترقی کی ہے۔ بہت سے لوگ اس ترقی کو جمہوری روایات سے وابستگی کے ثمرات میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔لیکن بعض ناقدین الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹنگ کے معیار پر سوال اٹھا تے بھی دکھائی دیتے ہیں۔واشنگٹن میں پاکستانی میڈیا کے ملکی سیاست اور معاشرے پر اثرات کے حوالے سے حال ہی میں ایک رپورٹ پیش کی گئی۔

پاکستانی صحافی ہمایوسف نے ایک امریکی تھینک ٹینک میں پاکستانی میڈیا کے کردار پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دہائی میں پاکستان کے نو آموز آزاد میڈیا کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ جن میں بہترین معاشی حالات سے بدترین معیشیت تک، مارشل لاء سے غیر مستحکم جمہوریت تک، ملکی تاریخ کی دو بدترین قدرتی آفات، 3 بڑے سیاسی قتل اور بڑھتی اور دہشت گردی اور انتہا پسندی پر رپورٹنگ کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔

واشنگٹن میں وڈرو ولسن سینٹر نامی ایک تھنک ٹینک میں پاکستان کے آزاد ہوتے ہوئے میڈیا کے پاکستانی معاشرے اور سیاست پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے اور مجموعی طور پر اس ترقی کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں

انہوں نے کہا کہ پاکستانی میڈیا نے حساس سیاسی اور معاشرتی معاملات پر نہایت سرگرمی سے رپورٹنگ کی ہے۔ حکومتی عہدے داروں کی کرپشن ہو یا انسانی اور نسوانی حقوق کی بحث یا صحت اور توانائی جیسے کسی بھی شعبے میں بےظابطگیوں کو بے نقاب کرنا۔ اس حوالے سے پاکستانی میڈیا نے ذمہ داری کا ثبو ت دیتے ہوئے عوام کو باخبر رکھا ہے

ہماکا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی اس تیز رفتار ترقی کا اندازی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2002ء میں صرف 2 ٹیلی ویژن سٹیشنز کے مقابلے میں آج ملک میں 90 سے زائد ٹی وی سٹیشنز اور 135ء پرائیویٹ ایف ایم چینلز کام کر رہے ہیں، 2 ہزار کے مقابلے میں آج 17000 ہزار صحافی ہیں۔ جو 40 سے 70 ملین لوگوں تک معلومات کا ذریعہ ہیں ۔ لیکن ان صحافیوں کی باقاعدہ تربیت نہ ہونے کے باعث صحافت کے معیار پر برا ااثر پڑا اور اس ترقی نے کچھ مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔

انہوں نے ٕمثال دیتے ہوئے کہا کہ جب دہشت گرد حملوں کے بعد لاشیں ، روتے ہو ئے بچے اور عورتیں دکھائی جاتی ہیں تو لوگ یہ مناظر دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ میڈیا صحیح کام نہیں کر رہا۔

ہما ان مسائل کی وجوہات میں سرکاری اور خارجی دباؤ کا بھی ذکر کیا۔

ہماکا کہناتھا کہ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی صحافی سٹوری کرتا ہے تو سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دباؤ آتا ہے کہ آپ ہمارے خلاف رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ فوج کی طرف سے بھی عسکریت پسندی کے خلاف آپریشن میں مدد کرنے جیسے مطالبات آتے ہیں یا غیر ملکی انٹر ایکشن میں کہا جاتا ہے کہ آپ حکومتی نقطہ نظر سے متضادرپورٹنگ نہ کریں۔

گفتگو میں شامل مقامی صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان تمام مسائل کے باوجود پاکستان کا میڈیا ایک آزاد میڈیا تصور کیا جا تا ہے

کامی بٹ نے کہا کہ یہ پاکستانی حکومت کا اچھا رویہ ہےکہ ہم یہاں آکر پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔ میرے خیال میں اس کی ایک وجہ پاکستانی میڈیا ہے۔

دلاور جان پاکستان کے شمالی علاقی جات میں رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ صحافیوں کو وسائل مہیا کرنے کی ضرورت ہے،۔ ان کی مناسب ٹریننگ نہیں ہے اور ان کے پاس آلات کی بھی کمی ہے۔ بلوچستان ، خیبرپختون خواہ اور فاٹا میں جنگ جیسی صورتحال ہے جس کی رپورٹنگ کے لیے صحافیوں کوقاعدہ ٹریننگ کی ضرورت ہے۔

رپورٹز ود آوٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2010 میں پاکستان آزادی صحافت کے معاملے میں دنیا کے 178 ممالک میں 151 ویں نمبر پر تھا اور صحافتی سلامتی کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کا ایک خطرناک ملک تصور کیا جاتا ہے جہاں سال 2010 میں 16 صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود مستقبل میں پاکستان کا میڈیا باقاعدہ صحافتی تربیت اور ایک ضابطہ اخلاق جیسے اقدامات کے ذریعے معاشرے میں ایک بہترین کردار ادا کر سکتا ہے ۔

XS
SM
MD
LG