رسائی کے لنکس

پاکستانی ماں کا دو سال کی تلاش کے بعد اپنے بیٹوں سے ملاپ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عظمیٰ کی مشکلات اس وقت شروع ہوئیں جب 2007 میں اس نے پاکستان میں سسرال میں رہتے ہوئے جڑواں بیٹوں کو جنم دیا۔ مبینہ طور پر اس کے شوہر نے اسے کہا کہ وہ اپنا ایک بیٹا اپنی بے اولاد نند کو دے دے۔

ایک پاکستانی خاتون کی اپنے بیٹوں کے لیے دو سال سے جاری تلاش امریکی ریاست نیو جرسی میں ختم ہوئی اور اب وہ ان کے ساتھ واپس لندن جا سکتی ہیں۔

امریکہ کی ایک مقامی اخبار ’دی کوریئر پوسٹ‘ کے مطابق جج رینے ماری بنب نے وفاقی مارشلز کو حکم دیا ہے کہ وہ جمعرات کو فلیڈیلفیا ایئر پورٹ سے روانگی کے وقت عظمیٰ شفقات اور ان کے آٹھ سالہ جڑواں بیٹوں کی حفاظت کریں۔

اخبار نے عدالتی ریکارڈ کے حوالے سے لکھا ہے کہ عظمیٰ کی مشکلات اس وقت شروع ہوئیں جب 2007 میں اس نے پاکستان میں سسرال میں رہتے ہوئے جڑواں بیٹوں کو جنم دیا۔ مبینہ طور پر اس کے شوہر نے اسے کہا کہ وہ اپنا ایک بیٹا اپنی بے اولاد نند کو دے دے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ جب عظمیٰ نے انکار کیا تو شوہر کے خاندان نے اسے جسمانی، جذباتی اور مالی استحصال کا نشانہ بنایا۔ مبینہ طور پر 2011 میں اس خاندان کے لندن منتقل ہونے کے بعد بھی یہ استحصال جاری رہا۔

عظمٰی شفقات اکتوبر 2013 میں قبل از وقت بیٹی کی پیدائش کے بعد اسپتال میں زیر علاج تھیں جب لڑکوں کے والد شفقات محمود ملک مبینہ طور پر اپنے بیٹوں کو پاکستان لے گئے جس کے بعد سے ان کی ماں کو بیٹوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔

عظمیٰ نے بیٹوں کی تلاش کے لیے برطانیہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی خدمات حاصل کیں۔

پچھلے سال ایک پاکستانی نے حکام کو معلومات دیں کہ لڑکوں کا باپ انہیں ریاست نیویارک کے شہر البنی لے گیا ہے جس کے بعد پہلی مرتبہ لڑکوں کی ماں کو معلوم ہوا کہ وہ کہاں ہیں۔

عظمیٰ کے وکیل سٹیفن کلن نے کہا کہ ’’ہم وہاں پہنچے مگر انہیں کسی طرح سے پتا چل گیا کہ ہم وہاں آ رہے ہیں۔‘‘

تاہم گزشتہ ماہ امریکی مارشلز جڑواں لڑکوں کو نیو جرسی کے شہر گلاؤسیسٹر ٹاؤن شپ سے ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گئے جہاں وہ اپنے والد اور چند رشتہ داروں کے ہمراہ رہائش پذیر تھے۔

وفاقی ایجنٹوں نے انہیں ان کے سکول سے تحویل میں لے لیا۔

سٹیفن کلن کا کہنا ہے کہ ایک برطانوی عدالت پہلے ہی ماں کو بچوں کی تحویل دے چکی ہے مگر ان کے والد بچوں سے ملاقات کی اجازت کی درخواست کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG