رسائی کے لنکس

ایف اے ٹی ایف ورکنگ گروپ رواں ماہ پاکستانی اقدامات کا جائزہ لے گا


پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے یا نکالنے کا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس 18 سے 23 اکتوبر کے درمیان فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہوگا۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے یا نکالنے کا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس 18 سے 23 اکتوبر کے درمیان فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہوگا۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے یا نکالنے کا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس 18 سے 23 اکتوبر کے درمیان فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہوگا۔ اس حتمی اجلاس سے قبل ورکنگ گروپ کا ایک جائزہ اجلاس 14 ستمبر سے 21 ستمبر تک فرانس ہی میں ہو گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جائزہ اجلاس میں پاکستان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پیش کیے گئے نکات کے مطابق اپنی عمل درآمد رپورٹ پیش کرنے کے علاوہ پاکستانی اقدامات کا دفاع کرے گا۔

حکومت ایف اے ٹی ایف کے اہداف کے مطابق اب تک 12 قوانین میں ترامیم کی پارلیمان سے منظوری حاصل کر چکی ہے۔ البتہ دو بلز پر حزبِ اختلاف کی حمایت حاصل نہ کر سکی۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ حزب اختلاف این آر او نہ ملنے کے باعث قوانین پر حمایت نہیں کر رہی جب کہ حزب اختلاف ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ اسے اینٹی منی لانڈرنگ میں دوسری ترمیم پر اعتراض ہے۔ جس کے تحت کسی بھی فرد کو کسی بھی جگہ وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ ترمیمی بل 2020 اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری وقف پراپرٹیز بل 2020 کی قومی اسمبلی سے منظوری حاصل کر چکی ہے۔ البتہ حکومت 24 اگست کو سینیٹ سے ان دونوں بلز کی منظوری حاصل نہ کر سکی۔

حکومت نے دونوں بلز کی منظوری کے لے رواں ماہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب تک کی قانون سازی

پارلیمانی ریکارڈ کے مطابق حکومت اب تک فارن ایکسچینج بل، اینٹی منی لانڈرنگ بل، کسٹم ایکٹ اور موجودہ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے حوالے سے ٹیکس لا بل اور اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے متعلق بل کی پارلیمان سے منظوری حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

اسی طرح میوچل لیگل اسسٹنس بل، ‏دہشت گردوں کے مالی وسائل کے ذرائع اور منشیات اسمگلنگ سے حاصل کردہ رقوم کی ترسیل روکنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی اور انسدادِ منشیات کے ترمیمی بلز بھی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرائے گئے ہیں۔

قومی اسمبلی نے آئی سی ٹی اوقاف بل اور اینٹی منی لانڈرنگ قانون میں مزید ترمیم کا بل تو منظور کر لیا ہے۔ لیکن سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باعث اس کی منظوری حاصل نہ کرسکی۔

کیا جدید ٹیکنالوجی منی لانڈرنگ روکنے میں مدد دے سکتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:20 0:00

دو اہم بلز جن کی پارلیمان سے منظوری حاصل کی گئی ان میں سب سے اہم انسدادَ دہشت گردی ایکٹ 1957 اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا ایکٹ 1948 شامل ہیں۔

اس قانون سازی کے ذریعے وفاقی حکومت کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت شکایات کے پیشِ نظر اقدامات اٹھانے کا اختیار حاصل ہو گا۔ ان اختیارات کے تحت اثاثے منجمد یا ضبط کرنا، افراد یا اداروں پر سفری اور اسلحے کی پابندیاں لگانا شامل ہیں۔

وفاقی حکومت نے ان تمام بلوں کے ساتھ ایک ایسا بل اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ ترمیمی بل 2020 بھی پیش کیا جس کا اپوزیشن کی نظر میں تعلق منی لانڈرنگ سے نہیں تھا۔

اس قانون کی طرف سب سے پہلے توجہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے دلائی۔ شاہد خاقان عباسی کے مطابق حکومت اس قانون کے ذریعے کسی بھی شہری کی گرفتاری کا حق حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس حق کو نیب کے لیے استعمال کیا جاتا۔

ان کے مطابق اس بل کے تحت حکومت کو ایک شہری کو 90 روز تک بغیر گرفتاری حراست میں رکھنے کا اختیار ہوگا۔

حزبِ اختلاف کے خدشات

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ حکومت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق قانون سازی کی آڑ میں مخالفین کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کے بقول وہ ایف اے ٹی ایف کی ضرورت پوری کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن حکومت جو اختیار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کی اجازت نہیں دیں گے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف بل میں کاروباری افراد کو صارفین کے بارے میں معلومات نہ دینے پر سزا دینے کی تجویز دی گئی جس کے نتیجے میں مخبری کی ریاست جنم لے گی۔

رضا ربانی کے مطابق بل میں یہ کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی افسر بغیر عدالت کی اجازت کے کسی کو بھی گرفتار کر سکتا ہے۔

'بھارت تنہا پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل نہیں کرا سکتا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:42 0:00

انہوں نے کہا کہ بل کے تحت بنائی جانے والی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران میں دو افراد کا تعلق فوج سے ہو گا۔ جب کہ جنرل کمیٹی کے ممبران میں چیئرمین نیب اور مسلح افواج کے دو ممبران کو شامل کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے شاید خود بل نہیں پڑھا۔ اگر وہ بل پڑھ لیتے تو اس بل کی حمایت نہ کرتے۔ کیوں کہ بل میں ساری قوم کو مخبر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

حکومت کا مؤقف

اس بارے میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جو بھی ترامیم کرائی جا رہی ہیں وہ ایف اے ٹی ایف کے مطابق ہیں۔

فواد چوہدری کے بقول حزبِ اختلاف کے بل مسترد کرنے سے ایف اے ٹی ایف پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان جلد از جلد ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلے۔

انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف میں بنیادی مطالبہ منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی ہے۔ منی لانڈرنگ کا بل ایف اے ٹی ایف کی ضرورت کے مطابق لایا گیا ہے۔ 24 گھنٹے میں بڑے لوگوں کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے لوگوں کے خلاف مقدمات آئیں گے تو وہ ہاتھ نہیں آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے پاس گرفتاری کا اختیار ہے جو مجسٹریٹ کے اختیار کے بغیر بھی استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کے گرے لسٹ میں جانے کی وجہ 90 کی دہائی کی قانون سازی ہے۔ 1991 کے قانون میں باقاعدہ انتظام کیا گیا کہ منی لانڈرنگ کوئی جرم نہ رہے۔ قانون کی اس خامی کو نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں نے بھی استعمال کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ سول جرم نہیں، بہت سنگین جرم ہے۔ اپوزیشن منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔ اسی لیے گھبرا رہی ہے۔ اپوزیشن نے منی لانڈرنگ قانون سے جتنے فائدے اٹھائے ہیں انہیں جاری رکھنا چاہتی ہے۔

گزشتہ روز حکومت اور پارٹی کے ترجمانوں کے اجلاس سے خطاب میں وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر اپوزیشن اور بھارت ایک پیج پر ہیں۔

ان کے بقول بھارت کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہو۔ ایف اے ٹی ایف قوانین ہر صورت پاس کرائیں گے۔

'پاکستان کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے خطرات کا ادراک نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:17 0:00

ایف اے ٹی ایف کی ٹائم لائن

ایف اے ٹی ایف نے اپریل میں پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے خلاف 13 فول پروف انتظامات سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کے لیے پانچ ماہ کا اضافی وقت دیا تھا۔

ایف اے ٹی ایف نے 21 فروری کو کہا تھا کہ پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لیے دی گئی تمام ڈیڈ لائنز ختم ہو چکی ہیں اور صرف 14 نکات پر بڑے پیمانے پر مکمل عمل ہو سکا جب کہ 13 اہداف پر اب بھی کام ہونا باقی ہے۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تیزی سے اپنے پورے ایکشن پلان کو جون 2020 تک مکمل کرے۔ ورنہ اسے نگرانی کے دائرہ اختیار کی فہرست میں شامل کیا جائے گا جسے عام طور پر واچ ڈاگ کی بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

جون میں کرونا وائرس کے باعث ایف اے ٹی ایف کا اجلاس نہیں ہو سکا تھا۔

پاکستان کو اس سے قبل 2012 سے 2015 تک گرے لسٹ میں رکھا گیا تھا لیکن انسدادِ منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی قوانین میں سخت اصلاحات سے متعلق قانون سازی کے بعد 2016 میں اسے اس لسٹ سے خارج کر دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے تجزیہ کار اور سینئر صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ پاکستان نے ایکشن پلان پر عمل درآمد کا ابتدائی ڈرافٹ گزشتہ ماہ جمع کروا دیا تھا اور اب ترمیم شدہ ڈرافٹ تیار ہو رہا ہے جو کسی بھی وقت جمع کروا دیا جائے گا۔

ان کے بقول اس ڈرافٹ میں پاکستان آگاہ کرے گا کہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کے کتنے پوائنٹس تھے جن پر مکمل عمل درآمد کر لیا گیا ہے۔

مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے 13 نکات ایسے تھے جن پر عمل درآمد ہونا باقی تھا۔ پاکستان نے بیشتر نکات پر عمل درآمد کر لیا ہے۔ لیکن اب بعض نکات ایسے ہیں جن کے لیے قانون سازی تو کر لی گئی ہے ان پر مکمل عمل درآمد کے لیے وقت درکار ہے۔

ان کے مطابق نئے قانون کے تحت اس کی زد میں آنے والے افراد کی نشاندہی اور پھر ان کے خلاف کارروائی میں وقت کی ضرورت ہو گی اور یہی وہ نکات ہیں جن پر پاکستان ابھی تک عمل درآمد نہیں کر سکا۔

مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے اب اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں اس بارے میں فیصلہ ہوگا کہ آیا پاکستان اس صورتِ حال میں گرے لسٹ سے نکلے گا یا اس کو بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے گا یا پھر گرے لسٹ میں رکھنے کی مدت میں توسیع کر دی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG