رسائی کے لنکس

نئی دہلی میں قید پاکستانی خاتون کی المناک داستان


فائل
فائل

ایک پاکستانی خاتون جس کا نام روبینہ ہے اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ حیدرآباد سندھ کی باشندہ ہے، تقریباً پانچ برسوں سے بھارت کے زیر اتنظام کشمیر کی کوٹ بھلوال جیل میں بند ہے۔ اُس کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ 2012ء میں اپنے شوہر اور چار ماہ کی بچی کے ساتھ نئی دہلی آئی تھی۔ یہاں اس کا شوہر اس کا پاسپورٹ، سفری دستاویزات اور تمام پیسے لے کر فرار ہوگیا۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق، لوگوں نے اس کی مدد کی اور اسے اتنے پیسے دیے کہ وہ واگہہ کے راستے سرحد پار کر جائے۔ لیکن، چونکہ اس کے پاس اس کے سفری کاغذات نہیں تھے اس لیے اسے واپس بھارت بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہو سکی اور نومبر 2012ء میں سیکورٹی فورسز نے اسے گرفتار کر لیا۔

یہ معاملہ 2014ء میں اس وقت سامنے آیا جب انسانی حقوق کے ایک کارکن اور قانون داں میر شفقت کی جیل میں اس سے اتفاقیہ طور پر ملاقات ہوئی۔ 2014ء میں بھارت کی ایک عدالت نے اسے واپس پاکستان بھیجنے کا حکم دیا۔ لیکن، اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ بھارتی عہدے داروں نے عدالت کو بتایا کہ پاکستانی ہائی کمیشن نے روبینہ کی شہریت کی تصدیق نہیں کی۔

پاکستانی روزنامہ، ’ڈان‘ کے مطابق، اس سال کے اوائل میں میڈیا رپورٹوں کی بنیاد پر پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ’نیشنل ڈاٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرہ)‘ اور امیگریشن اینڈ پاسپورٹ ڈائرکٹر جنرل کو ہدایت دی کہ وہ 48 گھنٹے کے اندر مذکورہ خاتون کی شہریت کی تصدیق کریں۔ لیکن، یہ بھی ممکن نہیں ہو سکا۔

اس کے بعد، پاکستانی وزیر داخلہ نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ روبینہ سے قونصل تک رسائی کے لیے بھارتی حکومت سے درخواست کرے اور پاکستان میں اس کے اعزا کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرے۔ لیکن، دو ماہ گزرنے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن گوتم نولکھا نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے روبینہ کے جیل میں بند ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے معاملات میں انسانی بنیادوں پر فوری کارروائی ہونی چاہیئے۔

انھوں نے ایسے معاملات کے لیے شہریت سے متعلق بھارتی قانون کو ذمے دار قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ قانونی داؤپیچ کو الگ رکھ دیں تو پائیں گے کہ بھارت کی اس سلسلے میں جو پالیسی ہے وہ اس کے لیے ذمہ دار ہے۔

’ڈان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اب چودھری نثار علی نے مذکورہ خاتون اور اس کی بچی کو پاکستان واپس لانے کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ انھوں نے اپنی وزارت کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے کو انسانی نقطہٴ نظر سے دیکھے اور روبینہ کو واپس پاکستان لائے۔ تاہم، تازہ صورت حال میں بھارتی انتظامیہ کی جانب سے اس کی واپسی کے سلسلے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

دوسری جانب، تازہ ترین صورت حال جاننے کے لیے، اسلام آباد میں متعلقہ سرکاری اہل کاروں سے فوری رابطہ نہیں ہو سکا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG