رسائی کے لنکس

چین میں پاکستانی شوہروں کی چینی مسلمان بیویاں زیر حراست


پاکستانی تاجر مرزا عمران بیگ چینی اُغر مسلمان بیوی کے ساتھ اپنی تصویر دکھا رہے ہیں۔
پاکستانی تاجر مرزا عمران بیگ چینی اُغر مسلمان بیوی کے ساتھ اپنی تصویر دکھا رہے ہیں۔

چین میں کچھ پاکستانی افراد نے بیجنگ میں موجود پاکستانی سفارتخانے سے درخواست کی ہے کہ صوبے شن جیانگ میں زیر حراست اُن کی چینی بیویوں کی حراستی کیمپوں سے رہائی اور اُنہیں چین سے باہر نکالنے میں مدد دے۔

ایک رپورٹ کے مطابق، دو پاکستانی افراد نے بیجنگ میں آج بدھ کے روز پاکستانی سفیر سے مدد کیلئے رابطہ کیا ہے۔ تاہم، اِن افراد کے مطابق، ’’پاکستانی سفیر نے تسلی دینے کے سوا کوئی مدد نہیں کی‘‘۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے کاسمیٹکس کے تاجر مرزا عمران بیگ نے نیوز ایجنسی، ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی پریشان ہیں کیونکہ اُن کی چینی اُغر مسلمان بیوی ملکہ مامیتی کو مئی 2017 میں چین کے مغربی صوبے شن جیانگ واپس پہنچنے پر حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔

عمران بیگ کا کہنا ہے کہ اُن کی بیوی کو اب آزاد کر دیا گیا ہے۔ لیکن، اُن کی بیوی اور چار سالہ بیٹی کے پاسپورٹ ضبط کر کے اُنہیں اُن کے شہر کے اندر محدود کر دیا گیا ہے اور اُنہیں شہر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ شن جیانگ میں اُغر نسل سے تعلق رکھنے والے 10 لاکھ سے زائد چینی مسلمان آباد ہیں اور چینی حکام کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کیلئے سیکیورٹی کے حوالے سے ایسی کارروائیاں ضروری ہیں۔

چینی حکام کی ان کارروائیوں سے بہت سے خاندان متاثر ہوئے ہیں اور ان سے ہمسایہ ملک قزاقستان میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے، کیونکہ متعدد قزاق شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، اس صوبے میں کم سے کم 38 پاکستانی افراد کی چینی مسلمان بیویاں زیر حراست ہیں یا پھر اُنہیں صوبے یا شہر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ لاہور کے ایک اور تاجر میاں شاہد الیاس نے ایسو سئیٹڈ پریس کو بتایا کہ اُن کی چینی اُغر مسلمان بیوی کو بھی گزشتہ سال اپریل میں حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔

چینی وزارت خارجہ نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ اُسے پاکستانی شوہروں کی چینی مسلمان بیویوں کے حالات کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ تاہم، حالیہ اقدامات صوبے شن جیانگ میں امن و استحکام کیلئے ضروری ہیں۔

’پاکستان ہیومن رائٹس کمشن‘ کے سربراہ، ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ میں موجود پاکستانی سفاتخانے کو اس بارے میں ضروری اقدامات اختیار کرنے چاہئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان میں امریکہ کے کچھ اقدامات کے خلاف پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے، اسی انداز میں چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بھی پاکستان میں صدائے احتجاج بلند کرنا ضروری ہو گا اور ہیومن رائٹس کمشن اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے گا۔

’ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز‘ کے چیئرمین اور انسانی حقوق کے فعال کارکن بیرسٹر امجد ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ چین پر دباؤ ڈالیں تاکہ چین میں موجود مسلمان برادری کیلئے آسانیاں پیدا ہوں۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی شہریوں کی جو چینی مسلمان بیویاں زیر حراست ہیں، قانونی طور پر اُنہیں کونسلر رسائی کا حق حاصل ہے اور پاکستانی سفاتخانے کو چاہئیے کہ وہ اُنہیں باہر نکالنے میں مدد دے۔

بیرسٹر امجد ملک نے کہا کہ چین میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو چینی ریاست کیلئے خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔ تاہم، انفرادی طور پر ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ’ایمنسٹی انٹرنیشل‘ اور ’ہیومن واچ‘ جیسے انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

وائس آف امریکہ نے بیجنگ میں موجود پاکستانی سفارتخانے کا مؤقف جاننے کی کوشش کی۔ تاہم، متعدد کوششوں کے باوجود سفارتخانے سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

XS
SM
MD
LG