رسائی کے لنکس

فلسطینی خواتین کے لئے ریڈیو اسٹیشن کا افتتاح


‘نساء’ ایف ایم نامی ریڈیو اسٹیشن نے اِسی ماہ مغربی کنارے کے شہر رملہ میں پروگرام نشر کرنا شروع کیے ہیں جِس کامقصدخواتین میں ان کے مستقبل کے بارے میں امیدکا احساس پیدا کرناہے
‘نساء’ ایف ایم نامی ریڈیو اسٹیشن نے اِسی ماہ مغربی کنارے کے شہر رملہ میں پروگرام نشر کرنا شروع کیے ہیں جِس کامقصدخواتین میں ان کے مستقبل کے بارے میں امیدکا احساس پیدا کرناہے

فلسطینی خواتین کی زندگیوں میں بہتری لانےکی غرض سے خواتین کے ایک گروہ نےمغربی کنارے میں ایک ریڈیو اسٹیشن کا آغاز کیا ہے جو عرب دنیا کے لیے ایک نئی جہت ہے۔

فلسطینی خواتین کی زندگیوں میں بہتری لانےکی غرض سے گذشتہ ماہ خواتین کے ایک گروہ نےمغربی کنارے میں ایک ریڈیو اسٹیشن کا آغاز کیا ہے جو عرب دنیا کے لیے ایک نئی جہت ہے۔

بیس سالہ ہالا بزارایک ریڈیو پروگرام پیش کرتی ہیں۔ اِس جوان سال پیشہ ور خاتون کے لیے یہ کام محض شو پیش کرنا نہیں ہےبلکہ متنازعہ علاقے میں رہنے والی خواتین کو کامیابی کی نوید دینا ہے۔ اُن کے بقول، ہم اُن مسائل پر بات کرتے ہیں جِن سے خواتین کا مستقبل تابناک ہو۔
‘نساء’ ایف ایم نامی ریڈیو اسٹیشن نے اِسی ماہ مغربی کنارے کے شہر رملہ میں پروگرام نشر کرنا شروع کیے ہیں جِس کامقصدخواتین میں ان کے مستقبل کے بارے میں امیدکا احساس پیدا کرناہے۔ عربی لفظ‘ نساء’ کا مطلب خاتون ہے۔ اِس ریڈیو اسٹیشن نے اِسی ماہ اپنی نشریات کا آغاز کیاجِس میں سوٹزرلینڈ میں قائم انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے ‘اسمائلنگ چلڈرین’ نے اُن کی مدد کی ہے۔

وائس آف امریکہ سےایک بات چیت کے دوران اِس ریڈیو اسٹیشن کی بانی اور منتظمہ، میسون عدے نے بتایا کہ اسٹیشن کا مقصد تفریح مہیا کرنے کےعلاوہ خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ علاقائی، بین الاقوامی اور مقامی سطح کی کامیاب خواتین کےبارے میں بات کرنے سے دوسری خواتین ان کے تجربات سے سبق حاصل کر سکتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ کر سکتی ہیں۔ چاہے حالات کیسے بھی ہوںوہ کچھ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

زیرِ تسلط علاقے میں رہنے والی ایسی متعدد فلسطینی خواتین کوجن کے مرد حضرات قید ہوں، اُنہیں اپنے بچوں کی کفالت کرنی پڑتی ہے، جب اُن کے گھر مسمار کیے جائیں اُنہیں رہائش کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، اور اسرائیلی چوکیوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔

وفا عبد الرحمٰن مغربی کنارے میں ‘فلسطینیت ’ نامی گروپ کی سرگرم رکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فلسطینی خواتین کو ثقافتی نوعیت کے تنازعات سےبھی واسطہ پڑتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عرب دنیا کی باقی خواتین کو صعوبتیں جھیلتے ہوئے دیکھ کر انہیں صدمہ پہنچتا ہے۔ سیاسی اسلام، اسلام کی تفسیر کا معاملہ، درحقیقت خواتین پرمزید بوجھ ڈالتا ہے اس لئے کہ ان معاملات میں خواتین کو خاندان کے ناموس کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔ آپ کے اچھے اور برے مسلمان ہونے کا انحصار آپ کی خاتونِ خانہ پر ہوتا ہے۔ کیا وہ پردے کا خیال کرتی ہے؟ کیا وہ ساری ہدایات پر عمل پیرا ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت میں یہ خواتین کے لیے بہت ہی مشکل بات ہے۔

وفا عبد الرحمٰن نئے ریڈیو اسٹیشن کا خیر مقدم کر تےہوئے کہتی ہیں کہ خواتین کو ایسے ریڈیو اسٹیشن کی ضرورت ہے جو اِن سارے معاملات کا احاطہ کرتا ہو۔ لیکن ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات مل کر خواتین کے مرتبے کو کس طرح تبدیل اور بہتر بناسکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG