رسائی کے لنکس

پاناما کیس: مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم


پاکستان کی عدالت عظمٰی نے پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کی مزید جانچ کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے ایک سینیئر افسر کی قیادت میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیا ہے۔

پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے پر 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور جب یہ فیصلہ سنایا گیا تو شاہراہ دستور جہاں سپریم کورٹ کے عمارت واقعہ ہے وہاں سینکڑوں پولیس اور سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔

لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جمعرات کو دن دو بجے یہ سنایا۔

تفصیلی فیصلہ 540 صفحات پر مشتمل ہے۔

جمعرات کو سنایا جانے والا یہ ایک منقسم فیصلہ تھا، بینچ میں شامل دو جج صاحبان جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اختلافی نوٹس لکھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اختلافی نوٹس میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا گیا لیکن بینچ میں شامل تین ججوں کے اکثریتی فیصلے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ’جے آئی ٹی‘ بنانے کا حکم دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے نام سات دن میں فائنل کیے جائیں، جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ اور ملٹری انٹیلی جنس ’ایم آئی‘ کے نمائندوں کو شامل کرنے کا کہا گیا ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل فواد چوہدری نے عدالتی فیصلے کے بعد کہا کہ بیرون ملک رقوم کی ترسیل اور دیگر معاملات کے بارے میں تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیا گیا۔

’’تو آپ اندازہ لگائیں کہ ملک کا وزیراعظم ایک جوائیٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے سامنے پیش ہو گا۔‘‘

وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اختلافی نوٹس کو عدالتی فیصلہ ’’ہر گز نہیں سمجھا جائے گا۔‘‘

’’اختلافی نوٹس کی حیثیت صرف ذاتی رائے کی ہوتی ہے۔۔۔ اس کی حیثیت عدالتی فیصلے کی نہیں ہوتی ہے۔۔۔ لہذا اختلافی نوٹس پر عمل نہیں ہو گا لیکن وہ کتابوں میں بند رہے گا۔‘‘

تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی فیصلے سننے کے لیے سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی فیصلے سننے کے لیے سپریم کورٹ میں موجود تھے۔

مشترکہ تحقیقات ٹیم کو دو ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا کہا گیا ہے جب کہ تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے بھی ’جے آئی ٹی‘ ہر 15 روز بعد عدالت میں رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہو گی۔

وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بنیچ میں، جسٹس گلزار احمد، جسٹس افضل خان، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز احسن شامل تھے۔

درخواست گزاروں میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی، وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ شامل تھے۔

XS
SM
MD
LG