رسائی کے لنکس

سانحہ ماڈل ٹاؤن: تحریک انصاف نے جس انصاف کا وعدہ کیا تھا وہ کب ملے گا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

"سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک مشکل اور نہ بھلا دینے والا سانحہ ہے۔ اِس سانحے میں اپنی آنکھوں کے سامنے میں نے اپنی والدہ کو مرتے دیکھا تھا۔ ماں کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل ہے، کوئی ایسا دِن نہیں گزرتا جس دن ماں کی یاد نہ آتی ہو۔"

یہ الفاظ 20 سالہ بسمہ امجد کے ہیں جو اپنی والدہ اور پھوپھی کے ساتھ 17 جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن گئی تھیں لیکن جہاں پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ان کی والدہ اور پھوپھی ہلاک ہو گئی تھیں۔

بسمہ کے خاندان کی وابستگی پاکستان عوامی تحریک سے ہے اور بسمہ کے بقول جب انہیں یہ پتا چلا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کو پولیس نے گھیر لیا ہے تو وہ والدہ کے ہمراہ وہاں پہنچیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بسمہ امجد نے بتایا کہ ان کے دیگر بہن بھائی گھر پر ماں کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ تھوڑی دیر میں ماڈل ٹاؤن سے گھر آ جائیں گی لیکن والدہ کی لاش واپس آئی۔

بسمہ امجد کے بقول، "موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو سب سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لوگوں کو انصاف دلائیں گے۔ ان کے بقول سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی اُن سے وعدہ کیا تھا اِس معاملے میں انصاف دلانا اُن کی اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔

بسمہ امجد کہتی ہیں کہ اُن کا اعلیٰ عدلیہ اور دیگر اداروں سے سوال ہے کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود متاثرین کو انصاف کیوں نہیں مل سکا؟

بسمہ امجد
بسمہ امجد

پاکستان عوامی تحریک لاہور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں انصاف کی مبینہ عدم فراہمی پر احتجاج کر رہی ہے۔ متاثرین نے سوال کیا ہے کہ تحریک انصاف نے جس انصاف کا وعدہ کیا تھا وہ اُنہیں کب ملے گا؟

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کا علاقہ ماڈل ٹاؤن میدانِ جنگ کا منطر پیش کر رہا تھا۔ پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی مبینہ جھڑپوں کو لگ بھگ تمام پاکستانی نجی ٹیلی ویژن چینلز نے براہِ راست دکھایا تھا۔

لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے اور اِرد گرد موجود تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کی تھی۔ اس کارروائی میں انتظامیہ کو پولیس کی معاونت بھی حاصل تھی۔

کارروائی کے دوران عوامی تحریک کے کارکنوں کی انتظامیہ اور پولیس کے مابین ہونے والی مبینہ جھڑپوں کے نتیجے میں دس افراد ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

سانحہ کے خلاف پاکستان عوامی تحریک نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور اپنی درخواست میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، اُس وقت کی وفاقی کابینہ سمیت پولیس افسران، اہلکاروں اور ضلعی حکومت کے عہدیداروں کو فریق بنایا تھا۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کہتے ہیں کہ سانحے کے سات برس مکمل ہونے پر بھی متاثرین انصاف کے لیے دربدر ہیں۔

کینیڈا سے جاری اپنے ایک بیان میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ چار سال پاکستان مسلم لیگ ن اور تین سال پاکستان تحریک انصاف کے بیت گئے لیکن متاثرین کو اب تک انصاف نہیں ملا۔

اُنہوں نے اعلان کیا کہ ماڈل ٹاؤن سانحے میں انصاف کے لیے قانونی جنگ مرتے دم تک جاری رہے گی کیوں کہ ان کے بقول ان کی انصاف کی جدوجہد سیاسی نہیں ایمانی ہے۔

پاکستان عوامی تحریک لاہور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں انصاف کی مبینہ عدم فراہمی پر احتجاج کر رہی ہے۔

جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ

حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے جسٹس باقر نجفی پر مشتمل ایک کمیشن بنایا تھا۔ کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کر کے پنجاب حکومت کے حوالے کی تھی جسے حکومت 2017 میں منظرِ عام پر لے آئی تھی۔

تاہم پاکستان عوامی تحریک نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے اب تک تین جے آئی ٹی ٹیمیں بن چکی ہیں۔ دو ٹیمیں اپنی اپنی رپورٹس جمع کرا چکی ہیں۔

اِس سلسلے میں بسمہ امجد کی درخواست پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے لارجر بنچ کے روبرو ایک جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ جس نے تحقیقات کے لیے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا بیان جیل میں قلم بند کیا تھا۔

واضح رہے کہ نومبر 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ اس بینچ میں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز الا احسن سمیت چار ججز شامل تھے۔

موجودہ قانونی صورتِ حال

عدالتِ عالیہ لاہور کے چیف جسٹس قاسم خان نے اپنی سربراہی میں بائیس مارچ 2019 کو ایک لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ جو سانحہ ماڈل ٹاون کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

لارجر بینچ میں جسٹس امیر بھٹی، جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس عالیہ نیلم، جسٹس اسجد جاوید گھرال، جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس فاروق حیدر شامل ہیں۔

کیس میں پنجاب حکومت کے وکیل ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ملک اختر جاوید کے مطابق مذکورہ کیس 135 گواہوں میں سے 86 گواہوں کے بیانات قلم بند ہو چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالتِ عظمٰی میں بیان جمع کرایا تو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا کہا تھا اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایک لارجر بینچ بنایا گیا۔ جس میں تمام بیانات کو جمع کرا دیا گیا تھا۔

ملک اختر جاوید کے مطابق اِس وقت حکومت عدالت میں اِس بات پر دلائل دے رہی ہے کہ آیا یہ قابلِ سماعت ہے یا نہیں۔

ملک اختر جاوید کے مطابق اِس کیس کی سماعت کی دو تاریخیں مقرر ہوئیں لیکن سماعت نہیں ہو سکی۔ ان کے بقول لارجر بینچ میں شامل ایک جج صاحب کو کرونا وائرس ہو گیا جب کہ دوسری مرتبہ بینچ دستیاب نہیں تھا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جو کہ لارجز بینچ کے سربراہ بھی ہیں وہ آئندہ ماہ پانچ جولائی کو ریٹائر ہو رہے ہیں جس کے بعد نئے آنے والے چیف جسٹس ایک نیا بینچ بنائیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کا مؤقف

سانحہ ماڈل ٹاون کے وقت پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور اِس حکومت میں اُس وقت پرویز رشید وفاقی وزیرِ اطلاعات تھے اور ماڈل ٹاؤن سانحے کے مقدمے میں وہ بھی نامزد ہیں۔

پرویز رشید سمجھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس کیس میں کوئی رکاورٹ نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز رشید نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں سے اُن کی جماعت حکومت میں نہیں۔ اگر ماڈل ٹاؤن سانحے کا مقدمہ موجودہ حکومت کے لیے یہ ایک اچھا مقدمہ ہوتا اگر اُن کے ہاتھ میں کوئی بھی ایسی چیز آجاتی جس میں مسلم لیگ ن کے لوگ ملوث پائے جاتے تو موجودہ حکومت اُنہیں جیلوں میں بند کر چکی ہوتی۔

پرویز رشید کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک ایسا ہی واقعہ ہے جیسا کہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں مبینہ طور پر لاہور میں ایک مذہبی جماعت کے لوگوں کو گولیاں ماری گئیں۔

عوامی تحریک کے کارکنوں کی اسلام آباد سے واپسی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:40 0:00

اُن کے بقول ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جب ایک طرف سے پتھر پھینکے جاتے ہیں تو پولیس گولیاں چلا دیتی ہے۔ اِسی طرح کا ایک حادثہ ان کے الفاظ میں ماڈل ٹاؤن کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ افراد مارے گئے تھے جس کے بعد اِس واقعے کو سیاسی بنایا گیا۔ اُن کے بقول اِس واقعے میں پولیس کے لوگوں کا انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں کیس چل رہا ہے۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے اُس وقت کے پنجاب کے صدر اور موجودہ سینیٹر اعجاز چوہدری کہتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہے جس پر وہ کوئی ردِ عمل نہیں دینا چاہے۔

ن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے کیس میں کوئی تاخیری حربے استعمال نہیں کیے جا رہے۔

واضح رہے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد اعجاز چوہدری پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے عوامی تحریک کے ساتھ رابطوں میں پیش پیش تھے۔

XS
SM
MD
LG