رسائی کے لنکس

براہ راست امن مذاکرات کا پہلا مرحلہ مکمل


تقریباً دوسال کے تعطل کے بعد مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے براہ راست مذاکرات واشنگٹن میں جمعرات کو دوبارہ شروع ہوئے جس میں اسرائیل وزیر اعظم نتن یاہو اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے شرکت کی۔ مذاکرات کے پہلے دور میں دنوں راہنماؤں نے اس مہینے مشرق وسطیٰ میں دوبارہ بات چیت کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے براہ راست مذاکرات کا پہلا مرحلہ واشنگٹن میں ختم ہوگیا، جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے شرکت کی۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے جمعرات کے روز اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تقریباً دوسال کے بعد ہونے والے پہلے براہ راست مذاکرات شروع کرائے۔ دونوں فریق اس مہینے کے آخر میں مشرق وسطیٰ میں مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد پر متفق ہوگئے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے بنجمن فرینکلن روم میں مذاکرات کے آغاز کے موقع پر ہونے والی تقریب میں وزیرخارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ اوباما انتظامیہ اگلے ایک سال کی مدت میں امن معاہدہ کرانے کا عزم رکھتی ہے۔

انہوں نے یہ بات زور دے کرکہی کہ اس سلسلے میں بنیادی کام اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس کو کرنا ہوگا۔

وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور فلسطینی صدر ، آپ اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کا ایسا کرنا امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے ۔ لیکن ہم نہ تو کوئی حل مسلط کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایسا کریں گے۔

صدر اوباما کی وزیراعظم نتن یاہو اور صدر محمود عباس سے ملاقات
صدر اوباما کی وزیراعظم نتن یاہو اور صدر محمود عباس سے ملاقات

یوشکل کی میز کے گرد روشن فانوسوں کے نیچے مسٹر نتن یاہو اور مسٹر عباس کے درمیان بیٹھے وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نےمذاکرات کے دوبارہ آغاز پر رضامند ہونے پر مبارک باد دی۔ لیکن انہوں نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل اور اسرائیل کی سیکیورٹی کی کوششوں کے سلسلے میں آنے والے مشکل دنوں سے خبردار بھی کیا۔

مز ہلری نے کہا کہ بلاشبہ اس میں رکاوٹیں اور مشکلات ہوں گی۔ امن کے نصب العین کے مخالفین اس عمل کو نقصان پہنچانے کی ہرممکن کوشش کریں گے ، جیسا کہ ہم اس ہفتے کے شروع میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔

تشدد کی کارروائیاں امن کوششوں کے لیے ہمیشہ خطرہ رہی ہیں۔

حالیہ دنوں میں ، مغربی کنارے میں دو حملوں کے نتیجے میں چار یہودی آباد کار ہلاک ہوگئے ۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے، جو غزہ کی پٹی پر حکمران ہے اور جو اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کی مخالف ہے، ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

مسٹر نتن یاہو کاکہنا ہے کہ اس طرح کے حملے مذاکرات کے لیے خطرے کا باعث بنتے ہیں اور اسرائیل کی سیکیورٹی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے لوگوں کو مارنا چاہتے ہیں۔ ہماری ریاست ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ ہمارا امن تباہ کرنا چاہتےہیں ، چنانچہ ہمارے لیے سیکیورٹی کا حصول ضروری ہے۔ سیکیورٹی امن کی بنیاد ہے۔

امن مذاکرات کے لیے ایک اہم آزمائش اس ماہ کے آخر میں اس وقت ہو سکتی ہے ۔ 26 ستمبر کو مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر پر اسرائیل کی جانب سے عائد دس ماہ کی پابندی کی مدت ختم ہو گی ۔

مسٹر عباس کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اس پابندی کی توسیع کرنے میں ناکام رہا تو مذاکرات ختم کر دیے جائیں گے ۔

اپنے ایک بیان میں ، فلسطینی صدر نے ایک مترجم کے توسط سے اپنے موقف کو واضح کیا ۔

انہوں نے کہ ہم ، اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آبادکاری کی تمام سر گرمیوں کے خاتمے سے اپنی وابستگی کو آگے بڑھائے اور غزہ کی پٹی میں پابندی کا مکمل طورپر خاتمہ کرے ۔

یہ مذاکرات دسمبر 2008 ء میں آخری کوشش کے ناکام ہونے کے بعد سے پہلے براہ راست مذاکرات ہیں ۔ اوباما انتظامیہ نے اپنے پہلے 20 ماہ میں دونوں فریقوں کو مذاکرات میں میز پر لانے میں صرف کیے ۔ مذاکرات کےآغاز میں کامیابی کے باوجود ، دونوں فریقوں کے درمیان کئی برس کے تشدد اور تعطل کے بعد وسیع اختلافات اور بے اعتمادی موجود ہے ۔

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی سفیر جارج مچل نے مذاکرات کے پہلے مرحلے کو بار آور قرار دیا اور اعلان کیا کہ فریقین نے مذاکرات کے لیے باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔

انہوں نےبتایا کہ دونوں فریق 14 اور 15 ستمبر کو خطے میں دوبارہ اور پھر اس کے لگ بھگ دو ہفتے بعد اور بعد ازاں ہر دو ہفتے بعد اجلاس کرنے پر متفق ہو گئے۔

فلسطینی ان علاقوں پر ایک مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں جن پر اسرائیل نے 1967 ءمیں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں ۔

مسٹر نتن یاہو فلسطینی مملکت کا تصور قبول کر چکے ہیں ، لیکن اہم شرائط کے ساتھ اور مشرقی یروشلم کے بغیر۔

XS
SM
MD
LG