امریکی سینیٹ میں منگل کے روز وزیر تعلیم کے طور پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نامزد کردہ امیدوار، بیٹسی ڈووس کے نام کی توثیق پر ووٹنگ کے دوران ووٹ برابر کے بعد، امریکی نائب صدر مائیک پینس نے اپنا ووٹ ڈالا، اور یوں اُن کا پلڑہ بھاری رہا اور اُن کی نامزدگی کی توثیق ہوگئی۔
کابینہ کے کسی نامزد رُکن کی توثیق کے مرحلے کے دوران، امریکی تاریخ میں پہلی بار، کسی نائب صدر نے اپنا ووٹ درج کرایا ہے۔
ووٹنگ کے دوران، دو ری پبلیکنز ڈیووس کی مخالف ’متحدہ ڈیموکریٹک کاؤکس‘ کے ساتھ مل گئے۔
ڈیووس اس بات کی حامی ہیں کہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل کرنے کے لیے والدین کو پبلک اسکولوں کے میسر کردہ فنڈ استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔
ووٹنگ کا نتیجہ 50-50 رہا۔ جس کے بعد، پینس نے اپنا ووٹ ڈالا۔ آئین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر ایوان رائے شماری میں منقسم ہو، تو نائب صدر ایسا کر سکتے ہیں۔
ٹینیسی سے تعلق رکھنے والے ری پبلیکن سینیٹر، لمار الیگزینڈر نے کہا ہے کہ ’’وہ (ڈیووس) ایک بہترین وزیر تعلیم ثابت ہوں گی‘‘۔ لمار نے سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں، صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے دور میں وزیر تعلیم کے فرائض انجام دیے تھے۔
اُنھوں نے اِس بات کی دلیل دی کہ ڈیووس کی جانب سےاسکول منتخب کرنے کا موقعہ دینے کا اقدام پبلک اسکولوں کے اندر مسابقت پیدا کرے گا اور کم آمدنی والے طالب علموں کو متمول خاندانوں کے بچوں کے مساوی درجہ حاصل ہوجائے گا۔
سینیٹر نے کہا کہ ’’یہ سوچ کہ کم آمدنی سے تعلق رکھنے والا ایک بچہ (نجی اسکول جانے کی سہولت رکھتا ہے) مساوی مواقع کی علامت ہے ؛ چونکہ دولت مند خاندانوں کے بچے ہی ایسا کر سکتے تھے، اور یہ انتہائی اہم سطح کا امریکی تصور ہے‘‘۔
سینیٹ میں ایوان کے اکثریتی قائد، مِچ مکونیل، جن کا تعلق کنٹکی سے ہے، کہا ہے کہ ’’وہ (ڈیووس) تعلیمی نظام کو درست کرنے کا عزم رکھتی ہیں، تاکہ ہر بچے کا مستقبل بہتر ہو‘‘۔
ووٹنگ سے قبل، ڈیموکریٹس نے متواتر 24 گھنٹوں تک سینیٹ کے ایوان کو سر پہ اٹھائے رکھا، وہ نامزد وزیر تعلیم کے خلاف دلائل دیتے رہے؛ اور اُن کی کوشش تھی کہ کم از کم مزید ایک ری پبلیکن رُکن اُن کے ساتھ آ ملے۔
کنیٹی کٹ سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر، کِرس مرفی نے توجہ دلائی کہ ڈیووس نے پبلک اسکولوں کو کئی طالب علموں کی ’’بند گلی‘‘ قرار دیا۔ بقول اُن کے، ’’ملک کی ابتدا ہی سے پبلک تعلیم امریکی خواب کا حصہ رہا ہے، جس کے حصول سے آپ کامیاب ہوں گے، چاہے کتنے ہی روڑے اٹکائے جائیں یا پیدائشی حالات مختلف ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔