رسائی کے لنکس

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف کتنے کیسز زیرِ التوا ہیں؟


پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف مختلف مقدمات درج ہیں جب کہ بعض مقدمات میں اُن کی ضمانت خارج ہونے کے بعد اُن کی گرفتاری کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔

اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر ہونے والی ہنگامہ آرائی کیس میں عمران خان کی ضمانت منسوخ ہو چکی ہے جس کے بعد عمران خان اعلٰی عدلیہ سے حفاظتی ضمانت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔

عمران خان کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات میں ان کے 10 سے زائد سینئر وکلا عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔

عمران خان کے وکلا کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف درج مقدمات صرف اور صرف سیاسی بنیاد پر بنائے گئے ہیں جن کا مقصد عمران خان کو دباؤ میں لانا ہے۔

دوسری جانب حکومتی وکلا کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اب تک عدالتوں کی طرف سے رعایت دی جارہی ہے، عمران خان کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کیا جائے اور کیسز کو التوا میں رکھا جائے۔


عمران خان کے خلاف اہم کیسز

قانونی ماہرین کے مطابق عمران خان کے خلاف اس وقت جو کیسز چل رہے ہیں ان میں کئی کیسز ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان میں ٹیریان وائٹ کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔

اس کیس میں امریکی عدالت اور عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کے برطانوی اخبار کو دیے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیا جا رہا ہے جن میں جمائما نے ٹیریان کو عمران خان کی بیٹی بتایا ہے۔

اس کیس سے حکومت توقع کررہی ہے کہ عمران خان کے انتخابی کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی ثابت کرکے انہیں آئندہ کے لیے نااہل قرار دلوایا جاسکتا ہے۔

عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس بھی اہم ہے جس میں فوج داری کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔

عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بینکنگ کورٹ میں کارروائی جاری ہے جہاں عمران خان عبوری ضمانت پر ہیں۔ اس کیس میں عدالت نے ان کی ضمانت کنفرم کرنے کے لیے انہیں طلب کیا اور عدم پیشی پر ضمانت منسوخ کرنے کا کہا جس پر ان کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ رابطہ کیا جہاں عدالتِ عالیہ نے 22 فروری تک بینکنگ کورٹ کو کوئی بھی حکم جاری کرنے سے روک دیا ہے۔


عمران خان کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری اور پولیس افسران کے خلاف بیان دینے پر مقدمہ بھی قائم کیا گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی معافی کی درخواست اور خاتون جج کی عدالت میں جاکر معذرت کرنے کے باوجود اس کیس میں ان کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔

اسلام آباد میں توشہ خانہ کا فیصلے آنے کے بعد الیکشن کمیشن کے باہر ہونے والی ہنگامہ آرائی اور اس دوران ایک ایم این اے کے گارڈکی طرف سے ہوائی فائر کیے جانے پر دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس مقدمے میں عمران خان کی ضمانت انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے منسوخ کردی ہے۔

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد 10 اپریل کو کامیاب ہوئی اور تین ہفتوں بعد ہی ان کے خلاف پہلی ایف آئی آر مسجدِ نبوی میں نعرے بازی کے واقعے کے حوالے سے پاکستان میں درج کی گئی۔

پچیس مئی کو جب عمران خان لانگ مارچ اسلام آباد لے کر آئے تو ان کے خلاف نقصِ امن کی دفعات کے تحت کئی مقدمات درج کیے گئے جن میں ان کے وکلا نے ضمانتیں حاصل کیں۔ ان میں سے ایک کیس اسلام آباد کے تھانہ سنگ جانی میں بھی درج ہے جس میں ضمانت کنفرم کروانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔

پچیس مئی کو عدالت کی جانب سے ڈی چوک کی طرف نہ آنے کے حکم کی مبینہ خلاف ورزی پر سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کا کیس ابھی بھی زیرِ سماعت ہے ۔


'عمران خان کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہورہی ہے'

عمران خان کے خلاف اس وقت درج مقدمات کی کل تعداد ان کے وکلا کو بھی معلوم نہیں ہے۔

عمران خان کے لاہور میں کیسز کے حوالے سے ان کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ اب تک عمران خان کے خلاف 30 کے قریب مقدمات درج ہوچکے ہیں اور ان میں سے بیشتر میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر ان کیسز کا مقصد عمران خان کے خلاف گھیرا تنگ کرنا ہے۔ ان کیسز میں صداقت کچھ بھی نہیں ہے، عمران خان نے کوئی کرپشن نہیں کی، کوئی قتل نہیں کیا، کوئی دہشت گردی نہیں کی۔

اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ جس کیس میں ان کی ضمانت مسترد ہوئی اس کیس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے ایما پر یہ واقعہ پیش آیا، اس میں دیگر ملزمان کی ضمانت ہو چکی ہے۔ لیکن عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی ضمانت منسوخ ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول ایک شخص جس کا کردار مبینہ دہشت گردی کے واقعہ میں صرف اتنا ہے کہ اس کے ایما پر ایسا ہوا اس کو ضمانت نہیں مل رہی اور باقی تمام افراد کو ضمانت دے دی گئی ہے۔

اظہر صدیق کہتے ہیں کہ اسی طرح توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا صرف شوکاز ہوا ہے اور اس کی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن ایف آئی اے میں اسی رپورٹ کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔

اظہر صدیق نے کہا کہ جج زیبا چوہدری کے معاملے میں بھی دہشت گردی کا مقدمہ بنایا ہوا ہے اور اس کیس میں توہینِ عدالت کے الزام سے عمران خان بری ہوچکے ہیں اور انہوں نے اس پر عدالت میں جاکر معذرت بھی کر لی تھی لیکن پھر بھی اس کیس میں عمران خان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

'عمران خان کو اب تک عدالتوں سے رعایتیں مل رہی ہیں'

عمران خان کے خلاف کئی کیسز میں پیش ہونے والے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف مختلف نوعیت کے کیسز چل رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف کیسز میں سب سے اہم کیس توشہ خانہ کیس ہے جو ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں چل رہا ہے، دوسرا اہم کیس ٹیریان وائٹ کیس ہے جس میں عمران خان اپنی مبینہ بیٹی کو تسلیم نہیں کررہے۔

جہانگیر جدون کہتے ہیں کہ یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِسماعت ہے، اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے باہر ہونے والی ہنگامہ آرائی کا کیس ہے جس میں اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان کی ضمانت منسوخ کردی ہے۔

اُن کے بقول اس کے ساتھ 25 مئی کو اسلام آباد آتے ہوئے سنگ جانی کے مقام پر ایک مقدمہ درج ہے جس میں عمران خان نے مبینہ طور پر جلاؤ گھیراؤ کے احکامات دیے تھے۔ اس کے علاوہ فارن فنڈنگ کا معاملہ بہت زیادہ اہم ہے جس میں بینکنگ کورٹ نے انہیں 22 فروری تک پیش ہونے کی مہلت دی ہے۔

جہانگیر جدون نے کہا کہ اس وقت کئی ایسے کیسز زیرسماعت ہیں جن میں عمران خان کو جیل جانا پڑسکتا ہے یا پھر انہیں نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان تمام کیسز میں ایک بات مشترک ہے کہ عمران خان ان تمام کیسز میں تاخیر کررہے ہیں۔ان کا مقصد ہی تاخیر کرنا ہے جس قدر بھی وہ کرسکیں۔

جہانگیر جدون نے کہا کہ عمران خان خود کہتے ہیں کہ انصاف سب کے لیے برابر ہونا چاہیے لیکن ایک عام آدمی کے خلاف کیس ہو تو اسے عدالتوں کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور جواب دہ ہونا پڑتا ہے، عمران خان خود کسی بھی کیس میں پیش ہونے کے بجائے اپنے وکلا کے ذریعے صرف وقت حاصل کررہے ہیں۔

جہانگیر جدون نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کیسز دباؤ کے لیے نہیں ہیں، توشہ خانہ میں سب کو پتا ہے کہ انہوں نے تحائف حاصل کیے۔ فارن فنڈنگ میں وہ آٹھ سال تک معاملہ لٹکاتے رہے۔ ان کے خلاف کوئی منشیات کے کیس نہیں بنائے گئے بلکہ تمام کیسز میں ان کے خلاف شواہد موجود ہیں۔

انہوں نے کہاکہ عمران خان کو اب تک عدالتوں سے بہت زیادہ رعایت مل رہی ہے۔ اب ان کے خلاف جو کیسز ہیں اور جن میں ان کی ضمانت ختم ہوگئی ہے ان میں پولیس گرفتار کرسکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG