پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دلوانے میں حال ہی میں سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کردار ادا کیا تھا۔
پرویز مشرف کو پاکستان میں مختلف مقدمات سمیت آئین شکنی کے مقدمے کا بھی سامنا تھا اور حکومت نے ان کا نام بیرون ملک جانے کی ممانعت والی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔
پیر کو ایک نجی ٹی وی چینل "دنیا نیوز" کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق آرمی چیف نے علاج کے لیے بیرون ملک کے لیے انھیں اجازت دلوانے میں کردار ادا کیا۔
"انھوں (جنرل راحیل شریف) نے مدد ضرور کی۔ میں اس بارے میں بالکل واضح ہوں اور ممنون ہوں۔ مطلب میں ان کا باس رہا ہوں میں بھی آرمی چیف رہا ہوں۔ انھوں نے مدد کی، کیونکہ یہ سیاسی بنیاد پر مقدمات ہیں، سیاسی طور پر مجھے ای سی ایل میں ڈالا ہوا ہے۔"
جب پرویز مشرف سے پوچھا گیا کہ مدد کرنے سے ان کی مراد کیا ہے اور یہ کس نوعیت کی مدد تھی تو سابق صدر نے کہا کہ جنرل راحیل نے عدالتوں پر ان کے بقول موجود دباؤ کو ہٹانے میں مدد کی۔
"بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے جو کہ کہنا نہیں چاہیے ہماری عدلیہ مجھے امید ہے کہ یہ عدل و انصاف کی طرف آجائیں۔ یہ عدالتیں پس پردہ دباؤ میں کام کر رہی ہوتی ہیں، فیصلے دے رہی ہوتی ہیں۔ پس پردہ دباؤ کو ہٹانے میں آرمی چیف کا کردار تھا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دباؤ ہٹانے کے لیے جنرل راحیل نے عدلیہ سے نہیں حکومت سے بات کی تھی۔
"حکومت سے ڈیل کی اور پھر حکومت جو دباؤ ڈال رہی تھی وہ انھوں نے ہٹا لیا تو پھر انھوں (عدالتوں) نے مجھے اجازت دے دی کہ علاج کے لیے باہر جائیں۔
رواں سال مارچ میں ای سی ایل سے نام ہٹائے جانے کے بعد پرویز مشرف نے بیرون ملک جاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا ضرور کریں گے اور وہ چند ماہ بعد وطن واپس آجائیں گے۔
سابق فوجی صدر کے اس انکشاف کے بعد حکومت یا عدلیہ کی طرف سے تو کوئی ردعمل تاحال سامنے نہیں آیا لیکن اس سے ملک کے عدالتی نظام سے پر ایک نئی بحث شروع ہو سکتی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ عدالتیں کسی دباؤ یا پھر ذرائع ابلاغ کی طرف سے قائم کی گئی فضا کے تناظر میں فیصلے نہیں کرتیں۔