رسائی کے لنکس

پولیس پر حملوں میں اضافے سے شہری خوف و ہراس کا شکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

شہری و انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن زر علی آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔

پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں حالیہ ہفتوں کے دوران خاص طور پر قانون نافذ کرنے والوں پر دہشت گرد حملوں میں اضافے سے شہریوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ تاہم پولیس حکام کا دعویٰ کرتے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال اتنی بھی غیر تسلی بخش نہیں ہے۔

رواں ہفتے ہی پولیس اہلکاروں کو دو مختلف مقامات پر نامعلوم شدت پسندوں نے بم حملوں سے نشانہ بنایا تھا۔ ان واقعات میں گو کہ جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن یہ صورتحال عام شہریوں کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہے۔

شہری و انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن زر علی آفریدی کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں کہ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جان محفوظ نہ ہو تو بلاشبہ عام شہری خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔

"شہر کے گلی کوچوں میں (دہشت گرد) آزادانہ گھوم رہے ہیں اور جب بھی پولیس ان پر ہاتھ ڈالتی ہے تو پھر وہی حشر ہوتا ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔۔۔عام لوگوں میں خطرناک حد تک خوف پیدا ہوا ہے۔"

تاہم پشاور پولیس کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ سجاد خان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ پشاور اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے دہشت گردوں کی کارروائیوں کی زد میں رہتا ہے لیکن ان کے بقول پولیس انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور رواں ہفتے ہی 250 سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔

انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "پشاور تین قبائلی ایجنسیوں میں گھرا ہوا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اس لیے یہ واقعات ہوتے ہیں۔۔۔لیکن ہم بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں صورتحال اتنی گمبھیر نہیں ہے، پولیس محتاط ہے اور جگہ جگہ آپریشن ہو رہے ہیں۔"

پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے درپیش دہشت گردی کی لہر میں پشاور سمیت صوبہ خیبر پختونخواہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور ملکی تاریخ کا بدترین تصور کیا جانے والا دہشت گرد واقعہ بھی اسی شہر میں دو سال قبل پیش آیا تھا۔

16 دسمبر 2014ء کو دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے 150 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں ایک سو سے زائد بچے شامل تھے۔

حکام دہشت گردی کی حالیہ لہر کو عسکریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG