رسائی کے لنکس

بھارت: سپریم کورٹ نے تاج محل کی تاریخ دوبارہ لکھنے کی درخواست خارج کر دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی سپریم کورٹ نے تاج محل کی تاریخ دوبارہ لکھے جانے سے متعلق درخواست کو نا قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا ہے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تاریخ کی کتابوں میں تاج محل سے متعلق غلط حقائق درج ہیں، لہٰذا انہیں کتابوں سے نکال دیا جائے۔

عدالت نے کہا کہ ہر چیز کو 400 سال کے بعد دوبارہ کھولا نہیں جا سکتا۔ تاج محل کی تاریخ کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔

جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس سی ٹی روی کمار پر مشتمل بینچ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے درخواست گزار سے پوچھا کہ یہ کس قسم کی درخواست ہے؟ عوامی مفاد کی عذرداریاں یعنی پبلک انٹرسٹ لٹی گیشن (پی آئی ایل) اس قسم کی تحقیقات کے لیے نہیں ہوتیں۔

عدالت نے درخواست کو شہرت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔

سپریم کورٹ بینچ میں شامل ججوں نے قرار دیا کہ ’’ہم یہاں تاریخ کو دوبارہ کھولنے کے لیے نہیں ہیں۔ تاریخ کو جاری رہنے دیا جائے۔‘‘

تاہم عدالت نے درخواست گزار کو اجازت دی کہ وہ اس بارے میں محکمۂ آثار قدیمہ سے رجوع کر سکتے ہیں۔

یہ درخواست سرجیت سنگھ یادو نامی شخص نے دائر کی تھی۔

سرجیت سنگھ یادو نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ تاریخ اور نصاب کی کتابوں سے تاج محل سے متعلق مبینہ غلط تاریخی حقائق کو نکالنے کے لیے مرکزی حکومت کو ہدایات جاری کرے۔


انہوں نے درخواست میں کہا تھا کہ عدالت محکمۂ آثار قدیمہ کو 17 ویں صدی کی اس یادگار کی عمر کا پتا لگانے کے لیے تحقیقات کرنے کی ہدایت دے۔

یاد رہے کہ تاج محل اقوامِ متحدہ کے ادارے ’یونیسکو‘ کے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل ہے اور اسے دنیا کا ساتواں عجوبہ بھی قرار دیا گیا ہے۔

قبل ازیں 21 اکتوبر کو بھی سپریم کورٹ نے اس قسم کی ایک درخواست خارج کی تھی، جس میں تاج محل سے متعلق مبینہ تاریخی حقائق کا پتا لگانے کے ساتھ ساتھ اس کے تہہ خانے کے 22 کمروں کو کھولنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔

رواں سال مئی میں مرکز میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ ایودھیا کے ایک شخص رجنیش سنگھ نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے تاج محل کے تہہ خانے کے 22 کمروں کو کھولنے اور وہاں کے اصل تاریخی حقائق کا پتا لگانے کے سلسلے میں ہدایت دینے کی اپیل کی تھی۔

ہائی کورٹ نے اس درخواست کو خارج کر دیا تھا، جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔سپریم کورٹ نے بھی اسے خارج کیا تھا۔

اس کے بعد سرجیت سنگھ یادو نامی ایک دوسرے شخص نے سپریم کورٹ میں اس بارے میں درخواست دائر کی ہے۔

دائیں بازو کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ تاج محل کی جگہ پر پہلے ایک مندر تھا جسے’ تیجو محل‘ کہا جاتا تھا۔ اسے منہدم کرکے تاج محل کی تعمیر کی گئی۔

اتر پردیش (یو پی) کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ تاج محل دراصل ایک مندر ہے اور اس کا نام ’تیجو محل‘ ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ تاریح دان اس قسم کے دعوؤں کو ہمیشہ مسترد کرتے رہے ہیں اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کی جگہ پر پہلے کوئی مندر تھا۔

ان کے مطابق سیاسی مقاصد کے تحت تاج محل اور دیگر تاریخی عمارتوں کے بارے میں تنازعات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بیوی کو تاج محل کا تحفہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:18 0:00

معروف تاریخ دان ڈاکٹر رام پنیانی نے سپریم کورٹ کی جانب سے مذکورہ درخواست خارج کیے جانے کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ حکومت کی پالیسی کے تحت مغل دورِ حکومت اور اس سے بھی پہلے کی تاریخی عمارتوں کو ہندو عمارتیں بتا کر جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے تنازعات کی وجہ سے فسادات بھی ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے بابری مسجد کے بارے میں تنازع پیدا کیا گیا اور اب اس کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے جب کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بابری مسجد کے مقام پر کسی مندر کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی اس کی کوئی تاریخی شہادت ملی کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔

رام پنیانی کے مطابق اسی طرح اب تاج محل کے بارے میں بھی تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مغل حکمران شاہ جہاں نے تاج محل کی تعمیر کرائی تھی اور اس کا ذکر شاہ جہاں کے بادشاہ نامہ میں ہے۔اس وقت کے بہی کھاتوں میں ایک ایک تفصیل موجود ہے، یہاں تک کہ مزدوروں کو دی جانے والی مزدوری اور سنگ مرمر پر کیے جانے والے اخراجات کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ متعدد تاریخ دانوں نے بھی اس پر لکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 17 ویں صدی میں ہیروں کے ایک فرانسیسی تاجر ٹاورنیر ان دنوں بھارت آئے تھے۔

انہوں نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ بادشاہ اپنی بیگم کے انتقال کی وجہ سے بہت غم زدہ ہیں اور وہ ان کی یاد میں ایک مقبرے کی تعمیر کرا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک یورپی سیاح پیٹر منڈی نے بھی اسی قسم کی باتیں لکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں اس وجہ سے تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاہ جہاں نے تاج محل کی جگہ فوج کے سینئر جنرل راجہ جے سنگھ سے قیمتاً خریدی تھی۔ اس کی بنیاد پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں پہلے شیو مندر تھا۔

تاہم رام پنیانی اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ راجہ جے سنگھ ہندؤوں کے ایک مذہبی نظریے ویشنو مت کے بانی تھے اور ویشنو مت کے لوگ شیو کی پوجا نہیں کرتے۔ لہٰذا وہاں شیو مندر تعمیر کیے جانے کا سوال ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تاج محل کا طرزِ تعمیر کسی مندر سے نہیں ملتا۔ ان کے خیال میں تاریخی عمارتوں کے سلسلے میں تنازع پیدا کرنے کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔

یاد رہے کہ دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت کی تاریخ غلط لکھی گئی ہے اور اسے درست کیے جانے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کی موجودہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بھی تاریخ کو از سر نو مرتب کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔

مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 25 نومبر کو آسام کے شہر گوہاٹی میں ریاستی حکومت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں تاریخ کو دوبارہ لکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ڈاکٹر رام پنیانی کا کہنا ہے کہ امت شاہ او ران کی جماعت اور سیاست کی یہ پالیسی ہے کہ تاریخی عمارتوں کو متنازع بنا کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔

حکومت اس قسم کے الزامات کی تردید بھی کرتی رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بائیں بازو سے وابستہ مؤرخین نے بھارت کی تاریخ مرتب کی ہے اور اس میں بہت کچھ ان کے اپنے نظریات کے مطابق ہے جو کہ حقائق کے برعکس ہے۔ لہٰذا تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG