رسائی کے لنکس

چیف جسٹس کا نیب کی کارکردگی پرعدم اظہار اطمینان


چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نیب کی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین نیب کوطلب کرلیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پیٹرولیم کی قیمتوں پر عائد ٹیکسزکیس کی سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے طلبی پر وفاقی وزیر غلام سرور خان پیش ہوئے۔

دوران سماعت سپریم کورٹ نے نیب کی کارکردگی پربھی سوالات اٹھا دیئے اور چیئرمین نیب کوچیمبرمیں طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب کوعدالت نے بہت سپورٹ کیا ہے، نیب سوائے آنے جانے کے کرہی کیا رہا ہے؟

انہوں نے کہا کہ نیب کوئی ایک کیس بتائے جومنطقی انجام تک پہنچایا ہو، فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی گرفتاری سے کیا نتیجہ نکلا؟ قوم کوعلم ہونا چاہیے خلاف ضابطہ تقرری کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ نیب سے صرف تحقیقات کرنے اورریفرنس دائر کرنے کی خبرآتی ہے، کیا نیب کا گند اب عدالت کو صاف کرنا ہے؟ نیب سے نتائج درکار ہیں، نیب کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ہوگا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور عدلیہ دونوں نے ہی احتساب کا نعرہ لگایا لیکن اس کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا، میں تو آج تک احتساب کے حوالے سے کوئی نتائج نہیں دے سکا، عدالت معاملہ نیب کو بھجواتی ہے جو تفتیش میں بہت وقت لیتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں بدنیتی سامنے آرہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنا عدالت کا کام نہیں، عدالت کو اختیارات کے ناجائز استعمال کا جائزہ لینا ہے، حکومت کو مہنگائی کا جواب عوام کو دینا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پی ایس او میں بہت بندر بانٹ ہوئی، پی ایس او کا پیٹرول کی قیمت پر کوئی کنٹرول ہی نہیں، پی ایس او افسران بھی کوئی تکنیکی کام نہیں کر رہے، پی ایس او میں غیر ترقیاتی اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں، سارا کام مارکیٹ فورسز کا ہے تو افسران کو بھاری تنخواہ کیوں ملتی ہیں؟،

کمرہ عدالت میں پی ایس او کی طرف سے پرائیویٹ وکیل پیش کرنے پر بھی چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ آپ نے کتنی فیس لی ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ پندرہ لاکھ روپے وصول کیے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں اٹارنی جنرل کو پیش ہونا چاہیے تھا، سرکاری اداروں کی حالت پہلے ہی پتلی ہے پھر پرائیوٹ وکیل کی خدمات لے لیتے ہیں جبکہ پرائیویٹ وکیل کے پیش ہونے سے متعلق جسٹس قاضی فائز صاحب کا فیصلہ موجود ہے۔

انہوں نے وکیل سے پوچھا کہ کہاں گئے وہ 37 لاکھ والے سی ای او، جس پر وکیل پی ایس او نے کہا کہ وہ 31 اگست کو ریٹائر ہو گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کھا پی کر چلے گئے اور پی ایس او کو برباد کرکے رکھ دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم ڈی پی ایس او کو اتنی تنخواہ پر کیوں لگایا گیا، کیا وہ ارسطو تھے۔

کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

XS
SM
MD
LG